کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 231
جس میں وہ نہ وجود کے مستحق ہیں اور نہ عدم کے۔ ۷) اگر اس بات کو تسلیم کیا جائے کہ ماہیت خارج میں ثابت ہے اور وہ اپنے ذات کے اعتبار سے مؤثر کی طرف محتاج ہے تو ا سمیں کوئی ایسی بات نہیں جو اس کے ازلی ہونے کے وجوب پر دلالت کرے بلکہ اس کے امکان پر بھی اور جب اس میں کوئی ایسا امر نہیں جو اس بات پر دلالت کرے تو یہ ممتنع نہ ہوا کہ افتقار اور احتیاج اس کیلئے صرف اور صرف حالت حدوث میں ثابت ہو اور یہ کہ حدوث اس افتقار کی حالت میں اس کیلئے شرط ہے ۔ ۸) جب یہ ہم نے بات تسلیم کرلی کہ فاعل کی طرف احتیاج کی حالت ہی امکان ہے تو وہ امکان کہ جس کو جمہور عقلاء سمجھتے ہیں وہ اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ کوئی چیز موجود ہوجائے اور اس کا کہ وہ معدوم بھی ہوجائے اور یہ امکان تو حدوث کیساتھ لازم ہے پس کسی چیز کے امکان کے بارے میں یہ بات معقول نہیں کہ وہ قدیم اور ازلی بنے اور واجب لغیرہ بنے اور وہ اس کے باوجود فاعل کی طرف محتاج بھی ہو اور یہ وہی بات ہے ہے کہ جس کا یہ دعوی کرتے ہیں ۔ ۹) انہوں نے جب واجب الوجود لغیرہ کاغیر کی طرف استناد ممنوع قرار دیا تو واجب الوجوب لذاتہ کا تو بطریقہ اولی غیر کی طرف استناد ممنوع ہوگا اور افلاک تو ان کے نزدیک واجب الوجود ازلا وابدا ہیں اور ان کا وجوب غیر کی وجہ سے ہے پس جب یہ ماہیت کو لازم ہے اور غیر کی طرف احتیاج سے مانع ہے تو پس وہ ماہیت کیلئے لازم ٹھہرے گی اور احتیاج سے مانع قرار پائے گی پس ماہیت قدیمہ غیر کی طرف افتقار سے ممنوع ہوگی پس لازم آیا کہ وہ غیر کی طرف ابدا ً محتاج نہ ہو اور یہی وہ بات ہے کہ جس کے جمہور عقلا ء قائل ہیں اور جو ذات قدیم ہو تو اس کے بارے میں یہ بات ممتنع ہے کہ وہ مفعول بنے ۔ ۱۰) اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ امکان ہی تو غیر کی طرف محتاج بنانے والا ہے جو کہ مؤثر ہے تو پس تاثیر تو کسی چیز کو موجود بنادینا ہے اور اس کے وجود کو ازسر نو پیدا کرنا ہے اور ایسی چیز کو وجود دیناہے جس کا عدم ممکن ہو تو یہ بات تو معقول نہیں ہے مگر ایک ایسے وجود کے احداث کیساتھ جو عدم کے بعد ہو ورنہ تو جس چیز کاوجود واجب ازلی اس کا عدم تو ممتنع ہے تو اس کا ایک ایسی ذات کی طرف حاجت معقول نہیں جو اس کو موجود بنادے جبکہ انہو نے یہ کہا کہ وہ ازلاً وابداً واجب الوجود ہے تو پھر اس کا عدم ممتنع ہوا پھر اس کے باوجود انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس کا غیر بھی وہ ہے جس نے اس کو وجود دیا ہے اور اس کو موجود بنایا ہے اور یہ کہ یقینااس کا وجود اور عدم دونوں ممکن ہے پس تحقیق انہوں نے اپنے کلام میں نقیضین کو جمع کیا جو کہ اس تناقض بڑھ کر ہے جو وہ غیر کے اوپر بطور تنقید ذکر کرتے ہیں ۔