کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 230
اگر یہ کہا جائے کہ میری مرادواجب من حیث ہو ہوہے یعنی قطع نظر واجب بنفسہ یا بغیرہ ہونے کے تو اس سے کہا جائے گا کہ خارج میں تو صرف یہی دو قسم کے واجب پائے جاتے ہیں بنفسہ اور بغیرہ اور اگر ان دونوں قیدوں سے مطلق کرکے مراد لیتا ہے تو یہ ایک ایسا معنی ہے جو ذہن میں تو فرض کرلیا جاتا ہے لیکن علانیہ اور خارج میں اس کوئی وجود نہیں تو حاصل یہ ہے کہ یہ کہا جائے گا کہ ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ واجب کو مطلقا لیا جائے تو اس کا مؤثر کی طرف استناد ممتنع ہے بلکہ واجب اگر مطلقا بھی لے لیا جائے تو مؤثر کو مستلز م نہیں اور نہ اس کی نفی کرتا ہے کیونکہ یقیناً واجب میں وہ بھی ہے جو مؤثر کو مستلزم ہے جو کہ واجب بغیرہ ہے اور وہ بھی ہے جو مؤثر کی نفی کرتا ہے جو کہ واجب بنفسہ ہے لہٰذا یہ لون کی طرح ہوا کہ اگر اسے مطلقا اور مجرداً لیا جائے تو یہ سواد اور بیاض کی نہ تو نفی کرتا ہے اورنہ اثباتاسی طرح حیوان کو اگر نطق اور دم کی قید سے مطلقا اور مجردا لیا جائے تو یہ یہ نہ نطق کااثبات کرتا ہے اور نہ نفی اسی طرح ان تما م عام معانی کا ہے جو اجناس کے بمنزلہ ہیں جن کے تحت انواع ہیں اگر ان کو ان انواع سے قطع نظر کرکے لیا جائے تو وہ ان انواع کی نہ نفی کرتے ہیں اور نہ اثبات۔
۴) اس قائل کایہ کہنا کہ حدوث من حیث الذات احتیاج سے مانع ہے۔ تو یہ ایک ایسی بات ہے جس کا فساد بدیہی اور سرسری عقل سے معلوم ہے اور اس بات کے فساد پر علم ان لوگوں کے قول کے فساد پر علم سے زیادہ واضح ہے جو یہ کہتے ہیں انسان من حیث الذات مؤثر کی طرف سے حاجت سے مانع ہے اس لئے کہ لوگوں کا اس بات پر علم کہ حادث کے وجود میں آنے کیلئے محدث اور موجدکا ہونا ضرروی ہے ،وہ اس بات پر علم سے زیادہ واضح اور اظہر ہے کہ وجود اور عدم سے پہلے حادث کیلئے ان دوجہتین میں سے کسی ایک کا مرجح ہونا ضروری ہے پس جب اس بات کی نفی کرنے والی حجت سوفسطائیہ ہوئی تو وہ بطریقہ اولی سوفسطائیہ ہوگی یعنی جب پہلی بات کی نفی کرنے والی حجت سوفسطائی دلیل کہلائے گی تو دوسری بات اس سے زیادہ بدیہی اور لوگو ں کے علم میں زیادہ اظہر اور واضح ہے تو وہ بطریقہ اولی سوفسطائی[دھوکہ بازی ] حجت ہوگی۔
۵) یہ حجت اس بات پر مبنی ہے کہ خارج میں کوئی ایسی ماہیت پائی جاتی ہے جو اس وجود کے غیر ہے جو خارج میں حاصل ہے اور یہ کہ اس کے اوپر وجود اور عدم متعاقبا طاری ہوتے ہیں اور یہ بات بالکل ممنوع اور باطل ہے ۔
۶) اگر اس بات کو تسلیم کرلیا جائے کہ ماہیت اپنی ذات کے اعتبار سے نہ وجود کی مستحق ہے اور نہ عدم کے اور نہ کسی فاعل کی طرف محتاج ہے اس لئے کہ یقیناً کوئی شخص یہ کہتا ہے تو وہ یہ کہے گا کہ ماہیات کو وجود نہیں دیا گیا اور یہ کہ جس چیز کو وجو دیا گیا وہ تو اس کا وجود کیساتھ اتصاف ہے اور وہ فاعل کی طرف محتاج ہوتی ہے کہ جب وہ موجود ہوتی ہیں پس جب وہ موجود قرار پائیں تو ان کا وجود واجب ہوا پس معلوم ہوا کہ اس کا فاعل کی طرف احتیاج اس کے غیر کے ذریعے وجود کے وجوب کی حالت میں ہے نہ کہ اس حال میں کہ