کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 228
جو آواز کا سبب ہے وہ آواز پر مقدم ہے اگر چہ زمان کے اعتبار سے متصل ہے لیکن حرکت کا پہلا زمان آواز کا پہلا زمان نہیں ہو سکتا بلکہ ضروری ہے کہ حرکت اور آواز دونوں ایک دوسرے کے بعد ہوں اسی لئے تو مسبب کو اس حرف ’’فاء‘‘کیساتھ سبب کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے جو تعقیب کیلئے استعمال ہوتا ہے لہٰذا کہا جاتاہی کہ کسرتہ فانکسر ،قطعتہ فانقطع ،ضربتہ بالسیف فمات یعنی میں نے توڑا تو وہ ٹوٹ گیا ،میں نے کاٹا تو وہ کٹ گیا ،میں نے تلوار سے مارا تو وہ مرگیا اسی اس نے کھا لیا تو سیر ہوا ،پی لیا تو سیراب ہوا پس ان تما م مثالوں میں اسباب یعنی توڑنا ،کاٹنا اور مارنا ان کے فاعل کیساتھ قائم ہیں اور ظاہر ہے کہ ان کا اول زمان ان کے مسببات یعنی ٹوٹنے ،کٹنے اور مرجانے کے اول زمان کیساتھ مقارن نہیں بلکہ ان کے بعد ہیں ایسے ہی ان اسباب کا آخری زمانہ بھی ان کے مسببات کے آخری زمان کیساتھ مقارن نہیں ہوتا بلکہ اس سے متاخر ہوتا ہے اسی لئے لوگوں نے اس مسبب میں اختلاف کیا جو انسان کے فعل سے پیدا ہو پس ایک جماعت نے کہا کہ وہ اس کا فعل ہے اور ایک نے یہ کہا کہ وہ اللہ کا فعل ہے ۔ اور ایک جماعت نے کہا کہ انسان اس کیساتھ فعل میں شریک ہے اور وہ اس کے فعل اور ایک دوسرے سبب کے مجموعے سے حاصل ہوتا ہے جیسے کہ تیر کا کمان سے نکلنا اور شکم سیری کا اکل وشرب سے حاصل ہونا اور اگر سبب کا مسبب پر تقدم نہ ہوتا تو یہ نزاع بھی نہ ہوتا اس لئے کہ سبب تو بندے کے حق میں محل قدرت میں حاصل ہوتا ہے اور مسبب اس کے سبب یعنی قدرت کے علاوہ محل کسی اور جگہ پر حاصل ہے اور اسی قبیل سے ہے ۔آستین کی حرکت کا اتصال ہاتھ کی حرکت کیساتھ اور رسی کے آخری سرے کی حرکت کا اتصال پہلے سرے کیساتھ اور اس کے نظائر بہت ہیں پس معلوم ہو اکہ انہوں نے وجود میں کسی ایسے مفعول کو نہیں پایا جس کا زمان اپنے فاعل کے زمان کیساتھ بغیر کسی تاخر کے متصل اور مقارن ہو جیسے کہ اللہ کے فعل میں اس کا دعوی کرتے ہیں کہ وہ تمام اشیاء کا خالق ومالک ہے اس معنی پر کہ تمام آسمانوں کی تخلیق کا زمانہ اللہ تعالی کے وجود کیساتھ مقارن ہے (معاذاللہ)اور یہ کہ یہ ممکن نہیں کہ ان مخلوقات میں سے کسی کی تخلیق پر اللہ کی ذات کا وجود متقدم ہو رہا وہ جو انہوں نے یہ کہا ہے کہ علم عا لمیت کیلئے علت ہے۔
تو اولا اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ان لوگوں کاقول جو احوال کو ثابت کرتے ہیں جیسے کہ قاضی ابوبکر ،قاضی ابو یعلی ،اور ان سے پہلے ابو ہاشم اور جمہور اہل نظر وہ یہ کہتے ہیں کہ علم تو عا لمیت ہی ہے اور یہی درست ہے اور ان لوگوں کے قول پر یہ توبات نہیں کہی جاسکتی کہ علم یہاں علتِ فاعلہ ہے بغیر کسی ارادے اور بغیر کسی ذات کے یا انکے علاوہ کسی اورچیز کی وجہ سے پس معلول ان کے نزدیک وجود کیساتھ موصوف نہیں ہوتااور علت کا معنی کے نزدیک استلزام ہے اور اس میں تو کسی کا اختلاف نہیں ۔