کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 227
ہے ،رہے وہ اسباب اور مسببات جو خارج میں موجود ہیں جیسے درد اور مزاج کی خرابی تو کون ہے جو اس بات کو تسلیم کرے کہ دونوں کا زمان ایک ہے ؟اور استدلال کرنے والے بھی خوداس کے قائل نہیں ،انہوں تو دلیل میں یہ کہا کہ در دکا وجود مزاج کی خرابی کے بعد ہوتا ہے اور جو چیز دوسرے کے بعد موجود ہوتا ہے وہ اس کے ساتھ کیسے مقارن ہو سکتا ہے زیادہ سے زیادہ بات یہ ہے کہ وہ بلا فصل ہو لیکن وہ زمان میں مقارن نہیں ہوتااس لئے کہ جو چیز کسی دوسری شی کیساتھ زمان کے اعتبار سے بالکل مقارن ،متصل اور معیت کی صفت کیساتھ موجود ہو وہ اس کے بعد کبھی نہیں ہو سکتا اسی طرح کا قول تمام اسباب میں بھی ہے ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ اسباب کے موجود ہونے کا زمانہ ان کے مسببات کے موجود ہونے کا زمانہ ہے بلکہ تقدمِ زمانی کا پایاجانا ضروری ہے اسی طرح توڑنا اورٹوٹنا ،جلانا اور جلنا ہے ،اس لئے کہ توڑنا وہ حرکت ہے جو توڑنے والے کیساتھ قائم ہے اور انکسار یعنی اجزاء کا تفرق تو وہ ایسی حرکت اور اثر ہے جو ٹوٹنے و الے جسم کیساتھ قائم ہے اور ظاہر کہ دونوں حرکتوں کازمانہ یکے بعد دیگرے ہے نہ کہ متصل اور یہ بات بدیہی ہے کہ وہ دواشیاء جن کازمان ایک ہو، اُن سے مختلف ہیں جن کا زمان یکے بعد دیگرے ہو اور بعض اسباب وہ ہیں جن کا مسبب دھیرے دھیرے وجود میں آتا ہے اور سبب ہی اس کا تقاضا کرتا ہے اور جب سبب مکمل ہو جاتا ہے تو مسبب بھی مکمل ہوجاتا ہے جیسے کھانا کھانا اور شکم سیری کہ جیسے جیسے انسان کھاتا جاتا ہے شکم سیری رفتہ رفتہ حاصل ہوتی جاتی ہے یہی حال پانی سے سیرابی حاصل ہونے کا بھی ہے اور ظاہر ہے کہ مسبب یہاں حاصل نہیں ہوتا مگر سبب کے حصول کے بعد نہ کہ اس کے ساتھ اور یہی اہل کلام اور فقہاء اور فلاسفہ میں سے جمہور کا قول ہے ۔یہ سب کے سب اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ مسبب کا وجود سبب کے بعد ہوتا ہے اور اسی پر متفرع ہو کر فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ جب کوئی شخص اپنی لونڈی کو یوں کہے کہ جب میرا والد مر جائے تو توآزاد ہے یا بیوی سے کہے کہ جب میرا والد مرجائے توتجھے طلاق ہے لہٰذا دونوں صورتوں میں طلاق اور آزادی مسبب یعنی والد کی موت کے بعد واقع ہوگی نہ کہ اس کیساتھ اور بعض متاخرین نے شذوذ اختیار کرکے یہ کہا ہے کہ مسبب کا وجود سبب کے زمان کے مقارن ہوتا ہے جیسے کہ معلول کا اپنی کیساتھ اتصال ہوتا ہے اور علت کا لفظ تو مجمل ہے اس سے وہ چیز بھی مراد ہوتی ہو جو وجود میں مؤثر ہو اور اس سے ملزوم بھی مراد ہوتی ہے پس اگر اس دوسرے معنی کے اعتبار سے اقتران مسلم ہے تو اول میں تو نہیں لہٰذا وجود میں ایسا کوئی مؤثر نہیں پایا جاتا جو من کل وجہ زمان میں مقارن ہو لہٰذاضروری ہے کہ وہ (مؤثر)اس پر زمان کے اعتبار سے مقدم ہو اور یہ بھی ضروری ہے کہ اس کاوجود عدم کے بعد حاصل ہو اسی وجہ سے تو فلاسفہ نے عدم کو من جملہ مبادی کے قرار دیا ہے جیسے کہ ہم نے ان کی یہ بات پہلے ذکر کردی ہے اور وہ جو مثال پیش کرتے ہیں یعنی کھریدنے کی آواز کا حصول کھریدنے کی حرکت کیساتھ کہ یہاں مسبب کا وجود سبب کیساتھ زمانا مقارن ہے تو یہ مثال بھی ممنوع اور غلط ہے کیونکہ وہ حرکت