کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 226
اگر وہ کلی طور پر اس بات کا دعوی کریں اور قیاس کی وجہ سے اسے جائز سمجھیں تو اسے کہا جائیگا کہ کلی دعوی مثالِ جزئی سے ثابت نہیں ہوتا ،فرض کرلیں کہ تم نے جو قاعدہ بیان کیاہے اس کے افراد میں سے کوئی ایک فرد بھی قضیہ کلیہ ہے تو تم نے یہ کیوں کہا کہ باقی افراد بھی اس کی طرح ہیں زیادہ سے زیادہ بات یہ ہے کہ تو قیاس تمثیل کی طرف رجوع کرتا ہے جبکہ ہم ایسے فروق ذکرکرتے ہیں جو تعداد میں بہت ہیں اور مؤثر بھی ہیں اور یہی وجہ کئی اعتبارات سے جواب کو متضمن ہے ۔ آٹھویں دلیل اور اس پر رد امام رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : آٹھویں دلیل:’’ ماہیت کے لوازم اس کے معلولات ہیں اور وہ زمان کے اعتبار سے اس سے متاخر نہیں ہوتے؛ اس لئے کہ مثلاً مثلث کا متساوی الاضلاع ہونا صرف اور صرف اس لئے ہے کہ وہ مثلث ہے۔ اور یہ مثلث کے لوازمات میں سے ہے۔ اور ہم ایک قدم آگے بڑھا کر یہ بھی کہتے ہیں کہ اسباب کا اپنے مسببات کے ساتھ اتصال ہوتا ہے۔ جیسے کہ آگ یعنی جلانے کا جلنے کیساتھ یا درد کا اتصال مزاج یااخلاط کی خرابی اور بے اعتدالی کیساتھ۔ بلکہ ہم ایک ایسی چیز ذکر کرتے ہیں جس میں ان کا نزاع نہیں ہے اور وہ علم کا عا لمیت کیلئے علت بننا اور قدرت کاقادریت کیلئے علت بننا ان لوگوں کے نزدیک جو اس کے قائل ہیں ،یہ تمام باتیں اپنی آثار کیساتھ مقارن اور متصل پائی جاتی ہیں اور اس پر مقدم نہیں ہوتیں ،اسی سے ہم نے یہ جان لیا کہ اثر ومؤثر کازمان کے اعتبار سے مقارنت استناد اور حاجت کی جہت کو باطل نہیں کرتا ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ماہیت سے مراد وہ شی ہے جو خارج میں موجود ہو جیسے کہ مثلثاتِ موجودہ توان ماہیتوں کی صفات اس سے صادر نہیں ہیں بلکہ ملزوم کا فاعل تو وہی فاعل ہے جو صفتِ لازمہ کا فاعل ہے اور ان میں سے کسی ایک کو دوسرے کے بغیر وجود دینا ممتنع ہے اور جس نے کہا کہ موصوف اپنے لازم کیلئے علت ہے ،اگر علت سے اس کی مراد یہ کہ وہ ملزوم ہے تو اس میں اس کیلئے کوئی حجت اور دلیل نہیں اور اگر اس کی مراد یہ ہے کہ وہ فاعل یا مبدع اور پیدا کرنے والا ہے ؛یا علت فاعلہ ہے۔ تو بدیہی عقل اس کا انکار کرتا ہے اس لئے کہ وہ صفات جو موصوف کیساتھ قائم ہیں اور اس کیلئے لازم ہیں ان کو وہی ذات وجود دیتا ہے جس نے ان کے موصوف کو پیداکیا اس لئے کہ موصوف کو اس کی صفتِ لازمہ کے بغیر وجوددینا ممتنع ہے اور اگر ماہیت ذہنیہ مراد ہے تو اس میں کلام وہی ہے جو ماہیتِ خارجیہ میں ہے پس موصوف کا فاعل صفاتِ لازمہ کا بھی فاعل ہے اور ملزوم لازم کیلئے علتِ فاعلہ نہیں بنتی ۔ ان کا یہ کہنا کہ یہ اقتضاء مثلث کے لوازم میں سے ہے اگر ان کی مراد اقتضا اور تعلیل سے استلزام ہے تو یہ برحق ہے لیکن اس میں ان کیلئے کوئی حجت ہی نہیں اور اگر ان کی مراد یہ ہے کہ وہ علتِ فاعلہ ہے تو یہ معلوم الفساد