کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 225
جان لی ہے کہ وہ اپنے اس قول کے باوجود کہ ممکن قدیمِ ازلی ہے تو یہ ممتنع ہے کہ وہاں پر کوئی ایسا عدم ہو جو کسی بھی طور پراس کے وجود پرسابق ہو اور بے شک ان کا کلام اس جیسے محل پردونقضین کو جمع کرتا ہے اور یہ اس لئے کہ ایسا تناقض ان کے کلام میں بہت زیادہ پایا جاتا ہے لیکن وہ امکا ن جس کو جمہور عقلاء نے ثابت کیا ہے اور ان میں سے قدماء بھی اس کے قائل ہیں جیسے کہ ارسطو اور اس کے متبعین اور وہ یہ کہ یہ ممکن ہے کہ کوئی چیز موجود ہو جائے اور پھر معدوم ہو اور یہ امکان سابقیتِ حقیقی کے ساتھ عدم پر مسبوق ہے اس لئے کہ ہر ممکن محدث وجود میں آنے والاہے بعد اس کے وہ نہیں تھا اور یہ ان امور کو تفصیل کیساتھ بیان کرنے کا موقع نہیں ،اپنے مقام پر ان کو تفصیلاً بیان کیا جائے گا اور مقصود تو یہاں یہ ہے کہ انہوں نے عقلی دلائل کو فاسد کردیا بسبب اس کے کہ انہوں نے کلام کو اپنے حقیقی اور اصل مراد سے محرّف کرکے دوسرے معانی پر محمول کرلیا جیسے کہ انہوں ادلہ عقلیہ کو بسبب اس سفسطہ کے اور قلبِ حقائقِ معقولہ کے فاسدکردیا ہے اور اس فطرت سے انکار کے بسبب جس پر اللہ تعالی نے مخلوق کو پیدا کیاہے اور اسی غرض سے یہ لوگ ایسے مجمل اور ذووجہین الفاظ استعمال کرتے ہیں جن سے ان کا مقصد یعنی تلبیس اور تحریف پورا ہوتا ہے جیسے کہ لفظ ’’تاثیر ‘‘اور ’’استناد‘‘تاکہ وہ یہ کہیں کہ یہ بات ثابت ہو گئی وہ اپنی ذات کے اعتبار سے ممکن الثبوت ہے اور اس کی استناد مؤثر کی طرف جائز اور ممکن ہے اور وہ اپنی اصل کے اعتبار سے دائم الثبوت ہے اور وہ اصل جس پر انہوں نے اپنے اس قول کو قیاس کیا ہے :’’کہ وہ ایک ایسا عدم ہے جو فرع میں اسکے وجود کولازم ہے ‘‘:اس سے مراد یہ ہے کہ وہ کسی مبدع ذات (از سر نو بلا سابق نمونے کے پیدا کرنے والا )کا پیدا کردہ ہے اور خالق کیلئے مخلوق ہے پس یہ استناد اور وہ استناد کہاں برابر ہے اور اس تاثیر اور اُ س تاثیر میں کتنا بڑا فرق ہے ؟ نویں وجہ :....’’ اس حجت کی حقیقت ایک قیاس مجرد ہے جو ایک ایسی تمثیل پر مشتمل ہے جو وصف جامع سے خالی ہے‘‘ کیونکہ مدعی یہ دعوی کرتا ہے کہ رب تعالیٰ کے فعل میں یہ شرط نہیں کہ وہ عدم کے بعد ہوجس طرح کہ اس کی صفات اس کی ذات کیساتھ لازم ہیں بلا سابقیتِ عدم کے اور یہ ایک قیاس کی وجہ سے جائز ہوا کہ تاثیر میں سابقیتِ عدم ضروری نہیں ۔ ان کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ دونوں باتوں کے درمیان ایک قدر مشترک ہے بلکہ قدر مشترک تو وہ ہے جو ہر لازم کو شامل ہے پس یہ بات لازم آئیگی کہ ہر لازم اپنے ملزوم کا مفعول بنے اور اگر ان کے درمیان قدر مشترک کو تسلیم بھی کرلیں تو ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ وہ اصل میں حکم کا مدار ہے تاکہ اس (میں اشتراک )کی بنا پر فرع کو بھی اس کیساتھ ملحق کیا جائے ۔