کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 224
ان پر امام رازی رحمہ اللہ نے ایک سوال واردکیا ہے کہ یہ بات جائز نہیں کہ یہ کہا جائے کہ ممکن اپنی ذات کی وجہ سے عدم کا مستحق ہے اس لئے کہ اگر وہ اپنی ذات کے اعتبار سے عدم کا مستحق ہو تو وہ ممتنع بنے گا نہ کہ ممکن بلکہ ممکن پر تویہ بات صادق آتی ہے کہ وہ اپنی ذات کی وجہ سے موجود نہیں ہوتایعنی من حیث ہوہواور اس پر یہ صادق نہیں آتا کہ وہ من حیث الذات موجود نہیں اور دونو ں اعتبارین کے درمیان فرق معروف ہے اس طرح کہ ممکن اپنے علت کے وجود کی وجہ سے وجود کا مستحق ہے پس بے شک وہ اپنے علت کے عدم کے وجہ سے عدم کا بھی مستحق ہے اور جب عدم اور وجود دونوں کا استحقاق غیر کی وجہ سے ہے اور ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی ماہیت کے مقتضیات میں سے نہیں تو پس کسی ایک کو دوسرے پر تقدم بھی حاصل نہیں لہٰذاایسی صورت میں اس کے وجود پر اس کے عدم کیلئے کوئی تقدم ِذاتی ثابت نہیں گا اور اس نے کہا کہ شاید اس حجت سے مراد یہ ہے کہ ممکن اپنی ذات کے اعتبار سے مستحق ہے نہ کہ اس کا عدمِ وجود کی استحقاقیت اور یہ استحقاقیت ایک وصفِ عدمی ہے جو کہ استحقاق پر سابق ہے پس اس اعتبار سے حدوث ِذاتی ثابت ہوئی ۔
اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ سوال تو ایک صحیح سوال ہے جو انکے قول کو باطل کردیتا ہے باوجودیکہ اس نے ان کے اُس باطل کو بھی تسلیم کرلیا اس لئے کہ یہ کلام اس امرپر مبنی ہے کہ خارج میں ایک چیز معین یعنی ایک ایسی ذات ہے جو (وجود خارجی کے علاوہ )وجود اور عدم دونوں کو قبول کرتی ہے اور یہ باطل ہے اور یہ اس پر مبنی ہے کہ ممکن کا عدم اس کی علت کے عدم کیساتھ معلل ہے اور یہ بھی باطل ہے رہا اس بات کا اعتذار کہ مردا یہ ہے کہ وہ اپنی ذات کے اعتبار سے وجود اور عدم دونوں کا مستحق ہے تو اس کے جواب میں کہا جائیگا کہ جب یہ بات فرض کرلی جائے کہ یہی مراد ہے تو پھر وہ کسی بھی حال میں عدم کا مستحق نہیں بنے گا اس لئے کہ اس کی ذات تو وجود اور عدم دونوں میں سے کسی ایک کا تقاضا نہیں کرتی البتہ اس کا غیر اس کے وجود کا مقتضی ہے اس کے عدم کا نہیں ،پس عدم ایسے حال میں باقی رہیگا کہ وہ بذاتِ خود حاصل نہیں ہوتا اور نہ کسی دوسرے موجودسے حاصل ہوتا ہے بخلاف وجود کے پس اس کا عدم اس کے وجود پر کسی بھی حال میں سابق نہیں ہوگا ۔
اس کا یہ کہنا کہ لااستحقاقیت ایک وصفِ عدمی ہے اس کا جواب یہ ہے کہ یہ چیز عدمی تودونوں نقیضین یعنی وجود اور عدم کا بوقت واحد عدم سے عبارت ہے اور یہ وہ عدم نہیں جو صرف عدم الوجود سے عبارت ہے اور (یہ بداہۃ معلوم ہے کہ ) نقیضین دونوں مرتفع بھی نہیں ہوتے جسطرح کہ دونوں مجتمع بھی نہیں ہوتے پس یہ کہنا ممتنع ہوا کہ آن واحد میں ارتفاع نقیضین سابق ہے بوجہ اس کے وجود کے اور اگر یہ مراد لیا جائے کہ دونقیضین میں سے کوئی ایک بھی اس میں سے نہیں تو یہ بات حق ہے اور ان میں کسی ایک کی دوسرے پر سابقیت بھی نہیں ہے ۔
ان کا یہ کہنا کہ اس کا عدم اس کے وجود پر سابق ہے باوجود یکہ وہ دوام کیساتھ موجود ہے تو تم نے یہ بات