کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 223
مستلزم ہے کہ عام لوگ آپس میں ایسے کلام کیساتھ متکلم ہوں جس سے بعض مراد سمجھ میں آتا ہو اور بعض نہیں اور یہ بات تو بداہۃ ًمعلوم ہے کہ کلام سے مقصود افہام ہے لہٰذا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ان کے مفاہیم ایسے ہوں جن کو صرف خاص لوگ سمجھتے ہوں اور یہ بھی (واضح ہے )کہ اگر اس کی مراد وہ نہیں جو اُن سے سمجھ میں آتی ہے تو پھر انبیائے کرام کا لوگوں کیساتھ یا اللہ کا تعالیٰ کا اپنے انبیائے کو خطاب تلبیس ، تدلیس اور اضلال قرار پائے نیز اگر یہ بات فرض کرلی جائے کہ ان کی مراد اس سے اس معنی کے علاوہ کوئی اور معنیٰ ہے جو اس سے سمجھ میں آتا ہے تو یہ ایک ایسی بات ہوگی جو ان کے خواص پہچانتے ہوں گے اور لازمی طور پر یہ بات معلوم ہے کہ کہ خاص اور عام سب صحابہ اس بات کا اقرار کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کے خالق اور مالک ہیں اور اس نے آسمان اورزمینوں کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور ان کے مابین تمام مخلوق کو پیدا کیا پس یہ مخلوقات پیدا ہوئیں بعد اس کے کہ یہ موجود نہیں تھیں ؛ اور اسی وجہ سے تو انبیائے کرام اور تمام عقلاء کی مراد پر ان عبارات کے ذریعے ہمیں علم حاصل ہوجاتا ہے اور ہم اس کے ذریعے اس بات کا استفادہ کرلیتے ہیں کہ جس نے بھی ان کے مراد اورمعنیٰ کے علاوہ کوئی اور معنی مراد لیا تو وہ ان کیساتھ مراد میں موافق نہیں ہوگا اور اگر وہ دعوی کرے کہ ان کی مراد وہی ہے جو اس مدعی کی ہے یعنی کہ اللہ تعالی کی صفات اس کی ذات کیساتھ لازم ہیں ازلا ًوابداًتویہ معلوم ہوا کہ وہ (قائلین)انبیائے کرام اور جمہورعقلاء پر صریح جھوٹ بولنے والاہے جس طرح کہ ان لوگوں نے لفظ ’’احداث ‘‘میں ایسا کیا ہے کیونکہ یقینالفظ ’’احداث ‘‘کامعنی تو ہرخاص وعام کے نزدیک معقول ومعلوم ہے اور یہ وہ معنی ہے جو تمام لغات میں بھی تواتر کیساتھ نقل ہوتا چلا آرہا ہے اور ان لوگوں نے اس کیلئے ایک نیا اور انوکھا معنی بیان کیا ہے پس انہوں نے کہا کہ حدوث دو معانی پر بولا جاتا ہے :
۱) حدوث ِزمانی اور اس کا معنی ہے کہ کسی چیز کا موجود ہونا بعد اس کے کہ اس کا زمان سابق میں وجود نہیں تھا۔
۲) دوسرا یہ کہ کوئی چیز اپنی ذات کی طرف مستند نہ ہو بلکہ غیر کی طرف ہو خواہ یہ استناد اور نسبت کسی زمانِ معین کیساتھ خاص ہو یا وہ تمام زمانوں میں مستمراور جاری ہو اور انہو ں نے کہا ہے کہ یہی حدوث ذاتی ہے اور اسی طرح ’’قِدم ‘‘کی تفسیر بھی انہوں نے ان دومعانی کیساتھ کی ہے اور انہوں نے قدم کو اپنے دو معانی میں سے ایک معنٰی کیساتھ وجوب کا مرادف قرار دیا۔ اور انہوں نے کہا کہ حدوثِ ذاتی کے اثبات پر دلیل یہ ہے کہ ہر ممکن لذاتہٖ اپنے ذات کی وجہ سے عدم کا مستحق ہے اور غیر کی وجہ سے وجود کا ،اور جو چیز ذات کی وجہ سے ہو (ذاتیات میں سے ہو)وہ اس چیز سے اقدم اور اسبق ہوتی ہے جو غیر کی وجہ سے ہو (یعنی ذات سے خارج ہو )پس اس ممکن کے حق میں وجوب کی بہ نسبت عدم زیادہ اقدم ہے تقدم ذاتی کیساتھ پس وہ حادث ہوگا حدوث ذاتی کیساتھ ۔