کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 222
مستلزم اور اس کا موصوف ہے ۔
بسا اوقات وہ یہ کہتا ہے کہ وہ اس کی ذات کیلئے مقوم اور متمم ہے اور اس کے امثال دیگر تعبیرات اور وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ کسی چیز (کی ذات)کا فاعل (محدث اور موجد)ہی اس کے صفاتِ لازمہ کا بھی فاعل ہے کیوں کہ کسی چیز کا فعل (احداث)اس کے صفاتِ لازمہ کے بغیر ممتنع ہے اور یہ بھی کہ صفات سے مجرد اور خالی ہونے کی حالت میں کسی ذات کا دوسری چیز میں مؤثر ہونا ممتنع ہے چہ جائیکہ وہ خود اپنی صفات کے بغیر مؤثر ہو اس لئے کہ اس کے مؤثر ہونے کی شرط یہ ہے کہ وہ زندہ ہو ،عالم اور قادر ہو اور اگر ا سکے زندہ ہونے ،عالم اور قادر ہونے میں وہ خود ،مؤثر ہوتو وہ ان اوصاف کیساتھ اتصاف کے بغیر مؤثر قرار پائے گا اور یہ بات بدیہی اور واضح طور پر ممتنع ہے بلکہ اس کی صفاتِ لازمہ تمام موجودات سے اکمل ہیں پس جب کسی موجودِ حادث کے بارے میں یہ امرممتنع ہے کہ وہ اپنی صفات سے مجرد ہو کر کسی چیز میں اثر کرے توان صفات میں محض اپنی ذات کے ذریعے کیسے مؤثر ہوگا پس یہ بات معلوم ہو گئی کہ یہاں اس کی صفات نے کسی طور پر بھی تاثیر نہیں کی الا یہ کہ اس مسمی اور ذات کو استلزام اور تاثیر کہا جائے جیسے کہ ماقبل میں گذرا اور ایسی صورت میں یہ کہا جائیگا کہ اس جیسے مسائل عظیمہ ٰمیں محض الفاظ پر اعتماد کرنا ممکن نہیں اس لئے کہ صفات لازمہ کیساتھ متصف ذات کے استلزام کی وجہ سے تمہارااس کو تاثیر کا نام دینااس بات کو ثابت نہیں کرتا کہ اس (تاثیر)کو مخلوقات کے ابداع کے بمنزلہ قرار دیا جائے ، فرض کرلیں کہ تم نے ہر استلزام کو تاثیر کہہ دیا لیکن تمہارا دعوی بعد اس کے کہ مخلوقِ مفعول اپنے خالق اور فاعل کیساتھ ملازم ہے تو ایک ایسی بات ہے کہ اس کا فساد بداہۃ واضح اور ثابت ہے جس طرح اس پر اگلے پچھلے تما م عقلاء متفق ہیں اور تو موجودات میں کسی بھی چیز میں اس کامشاہدہ نہیں کر پاتا اور کوئی بھی چیز ایسی معلوم نہیں کہ اس نے دوسری چیز کواس حال میں پیدا کیا ہو کہ وہ حالتِ ابداع میں اس کیساتھ ا س طور پر مقارن ہو کہ وہ دونوں ایک ہی زمان میں وجود میں آئے ہوں اور کوئی بھی دوسرے سے سابق نہ ہو بلکہ یہ بات بداہۃً معلوم ہے کہ وہ تاثیر جوکسی چیز کی ابداع اورا س کا خلق (کی صورت میں ہوتا)ہے اور اس کا موجود بنا دینا ہے (ایسی تاثیر )اس کے عدم کے بعد ہی موجودہوتی ہے ورنہ تو وہ موجودِ ازلی جو ازل سے موجود ہے کبھی بھی کسی ایسے مبدع کی طرف محتاج نہیں ہے جو خالق ہو اور اس کو وجود دے اور نہ وہ ایسا ممکن بنتا ہے جو وجود اور عدم دونوں کو قبول کرتا ہو بلکہ جس ذات کا قدم واجب ہو اس کا عدم ممتنع ہوتاہے لہٰذایہ بات ممکن نہیں کہ وہ عدم کو قبول کرے ۔
آٹھویں وجہ :.... اللہ تعالیٰ کا اپنی مخلوقات میں تاثیر کوفعل ،صنع ،ابداع اور خلق کانام دے دینا اور اس کے امثال دیگر عبارات ایسی عبارات ہیں جو انبیائے کرام علیہم السلام سے متواتر ہیں بلکہ جس کو جمہور عقلاء بھی مانتے ہیں اور یہ اُن عبارات میں سے ہے کہ جو خاص اور عام سب کی زبان پر جاری ہیں اور اس جیسی عبارات کے بارے میں یہ جائز نہیں کہ ان کامعنیٰ مراد ایک ایسا امر ہوجس کو صرف خاص لوگ سمجھتے ہوں اس لئے کہ یہ تو اس بات کو