کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 221
جب واجب کی تفسیر قائم بنفسہ کیساتھ اور ممکن کی قائم بالغیر کیساتھ کی جائے اور یہ بات بھی معلوم ہے کہ اس کی یہ تفسیر باطل ہے اور ایک محض اختراع ہے اور اس کا نتیجہ ایک لفظی جھگڑے کی طرف نکلتا ہے جس کا کوئی کوئی فائدہ نہیں ۔
ساتویں وجہ :....اس کا یہ کہنا کہ یہ بات ثابت ہوگئی کہ عدم کی سابقیت پر تاثیر موقوف نہیں پس اس کے جواب میں کہا جائیگا کہ یہ تو اس وقت صحیح ہے کہ جب وہ ذات جو اپنی صفات کو مستلزم ہے ،وہی صفا ت میں بھی مؤثر ہو اور ایسی صورت میں تاثیر کے لفظ سے اگر استلزام مراد ہو تو دونوں ایک دوسرے میں مؤثر ہیں کیونکہ وہ اس کیلئے مستلزم ہے ،اس سے یہ بات لازم آئی کہ ان میں سے ہر ایک واجب بنفسہ ہے نہ کہ ممکن اور یہ باطل ہے۔ اور اگر تاثیر کے لفظ سے یہ مراد ہے کہ ان میں سے ایک نے دوسرے کو وجود دیا یا اس کافعل اس سے صادر ہوا؛ یا اس نے اس کو موجود بنایا؛ یا اس کے امثال (دیگر تعبیرات)جو مصنوعات کے پیدا کرنے میں ایک معقول تعبیر ہے تو یہ بھی باطل ہے اس لئے کہ کوئی بھی عاقل اس امرکا قائل نہیں کہ موصوف نے اپنی صفات لازمہ کوخود وجوددیا ،نہ یہ کہ ان کو پیدا کیا ،نہ یہ کہ انکا وہ فاعل ہے اور نہ یہ کہ اس نے ان کو موجودبنایا نہ اس کے مثل اور کوئی بات جو اس پر دلالت کرتی ہو بلکہ ہر زندہ میں جو اعراض اور صفات اس کی اختیار کے بغیر پیدا ہوتی ہیں جیسے کہ صحت ومرض ہے کبر ہے تو کوئی بھی عاقل اس بات کا قائل نہیں کہ اس نے ان کو وجود دیا ہے یا وہ ان کا فاعل ہے پس اس ذات کا کیا حال ہو گاجس کیساتھ اس کی صفات لازم ہوں جیسے کہ اس کی زندگی اور دیگر لوازم ہیں ۔
اسی طرح کوئی بھی عاقل اس بات کا قائل نہیں کہ جمادات اور نباتات اورجاندار کے علاوہ دیگر اجسام میں ان کی جسامت اور مقدار جو ان کیلئے لازم کی طرح ہے ،ان بے جان اجسام نے ان کوخود وجود دیا ہے ؛اور اس کے انتخاب کا وہ فاعل ہے۔ یعنی مثلاًاس مادے کو پتھرکاشکل دے دیا، تودوسرے کونبات کا اور اسکے علاوہ دوسرے صفات لازمہ (کا بھی یہی حال ہے ) بلکہ تمام عقلاء بالاتفاق افعال طبعیہ اور ارادیہ کو ثابت کرتے ہیں (یعنی مانتے ہیں )۔اور جو افعال ارادیہ کوثابت نہیں کرتے تو ان میں کوئی بھی ایسا نہیں جو ذات کے لوازامات کواس کی صفات میں سے قرار دے اور ان کے لئے مفعول قرار دے نہ ارادۃ ومستقلاًاور نہ بالطبع بلکہ وہ ان سے صادر ہونے والے افعال اورمفعولات اور صفاتِ لازمہ اور غیر لازمہ کے درمیان فرق کے قائل ہیں (الحاصل وہ افعال اور صفات میں فرق کرتے ہیں ) اور کبھی تو ذات کیلئے بعض صفاتِ عارضہ کے حصول میں تاثیر ثابت ہوتی ہے پس اس کی نسبت اس کے فعل کی طرف کی جاتی ہے کیونکہ وہ اسی کے ذریعے حاصل ہوتی ہیں جیسے کہ علم باعتبار نظر اور استدلال کے اور اسی طرح شکم سیری کا حصول اکل وشرب کے ذریعے بخلاف صفات لازمہ کے اور وہ جو اس کی قدرت ،فعل اور اختیار کے بغیر حاصل ہوتے ہیں تو کوئی بھی عاقل اس کا قائل نہیں کہ وہ سب مؤثر ہیں یا یہ کہ سب اس کے اثر میں سے ہیں بلکہ وہ یہ کہتا ہے کہ وہ ا سکے لئے لازم ہے ا ور اس کی صفت ہے اور وہ اس کیلئے