کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 220
بھی جیسے کہ ہشامیہ ،کرامیہ ،کلابیہ ،اشعریہ اورا ن کے علاوہ اور اس میں صرف جہمیہ نے اختلاف کیا ہے اور وہ امت کے سلف اور ائمہ کے نزدیک اور ان کی تمام جماعتوں کے نزدیک اللہ اور اس کے اصول پر ایمان سے بہت زیادہ دور ہیں اور معتزلہ اور ان کے امثال نے ان کیساتھ موافقت کی ہے یعنی ان میں سے وہ جو امت کے نزدیک بدعت میں مشہور ہیں ،رہے احکام تو وہ اللہ پر اس بات کا حکم لگانا ہے کہ وہ زندہ ،عالم اور قادر ہے۔ اور یہی اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں برحق خبر ہے اور اس کو معتزلہ بھی ثابت کرتے ہیں (یعنی مانتے ہیں )۔ لیکن غالی جہمیہ اللہ تعالی سے اسماء کی نفی کرتے ہیں اور ان کو مجاز قرارر دیتے ہیں ۔ پس وہ اللہ کے بارے میں خبر کو مجاز کہتے ہیں ۔ اور یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی صفات کے منکر ہیں ۔ اور ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کسی بھی چیز کا تقاضا نہیں کرتی۔ اس لئے کہ مخبرین کا کلا م اور ان کا حکم ایک ایساامر ہے جو ان کے ساتھ قائم ہے وہ اللہ کی ذات کیساتھ قائم نہیں ۔
رہے و لوگ جنہوں نے احکام کو ثابت نہیں مانا؛ جیسے کہ ابوھاشم اور اس کے اتباع؛ تو وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ نہ تو موجود ہیں اور نہ معدوم پس اس کو موجودات کی طرح نہیں قرار دیا جا سکتا ۔رہا صفات کے ان مثبتین پر کلام جو یہ کہتے ہیں کہ اس کی صفات موجود ہیں اور اس کی ذات کیساتھ قائم ہیں اور اس کی مخلوقات ایسی اشیائے موجودہ ہیں جو اس کی ذات سے مبائن اور جدا ہیں تو ان لوگوں کے نزدیک اللہ تعالی کی صفات واجب الثبوت ہیں ،ان کے اوپر عدم (فنا)ممتنع ہے ۔یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان بارے میں وجود اور عدم دونوں ممکن ہیں جیسے ان ممکنات کے بارے میں یہ دونوں احتمال ثابت ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے وجود دیا ہے ۔ صفات کیلئے ایسی ذوات ہیں جو ان کے وجود کے علاوہ ثابت ہیں ۔ اور وہ ذوات وجود اور عدم دوونوں کو قبول کرتی ہیں جیسے کہ یہی بات بعض لوگ ممکناتِ مفعولہ کے بارے میں کرتے ہیں پس یہ بات واضح ہوئی کہ اللہ تعالی کی صفات کو اس کی مخلوقات کیساتھ مثال دینا اور اس کے مشابہہ قرار دینا تما م جماعتوں اور طوائف کے نزدیک انتہائی درجے کی فاسد تمثیل ہے ۔
چھٹی وجہ :....اس کا یہ کہنا کہ:’’ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے کوئی بھی چیز اپنی ذات کے اعتبار سے واجب الثبوت نہیں بلکہ وہ ممکنۃ الثبوت ہیں اور اللہ تعالی کی واجب الوجود ذات کے اعتبار سے واجب الثبوت ہیں ۔‘‘ تو یہ ایک ممنوع ااور باطل کلام ہے۔ بلکہ صفات تو اس کی ذات کیساتھ لازم ہیں اور ذات کا وجود ان صفات لازمہ کے بغیر ممکن ہی نہیں اور نہ صفاتِ لازمہ کا وجود بغیر ذات کے ممکن ہے اور ان دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کیساتھ لازم اور دوسرا اس کیلئے ملزوم ہے۔ اور مدعی کا یہ دعوی کرنا کہ ذات تو واجب الوجود ہے نہ کہ صفات تو یہ بھی باطل ہے اور یہ اُس قائل کے قول کے بمنزلہ ہے جو یہ کہتا ہے کہ صفات واجب الوجود ہیں ذات نہیں ،خواہ وہ واجب الوجود کی تفسیر ’’بذات خود موجود ‘‘سے کرے یا کسی ایسی ذات سے جو عدم کو قبول نہ کرتا ہو یا اس کیساتھ جس کیلئے نہ کوئی فاعل ہو اور نہ کوئی علتِ فاعلہ ہو اور دونوں (واجب اور ممکن)اس صورت میں جدا ہوتے ہیں ۔