کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 22
حضرت ابو بکرو عمر و عثمان و علی اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں ہماری رائے یہ ہے کہ کمال صدق اور استقامت علی الحق کے اعتبار سے وہ ایک مثالی گروہ تھا جس کی نظیر دنیائے انسانیت میں تلاش نہیں کی جاسکتی ، چنانچہ آپ کتاب ھذٰا کی آخری فصل میں اس کی تفصیلات ملاحظہ فرمائیں گے۔
ہم قبل ازیں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث صحیح بیان کر چکے ہیں ، ارشاد ہوتا ہے: ’’تمام زمانوں سے بہتر میرا زمانہ ہے، پھر وہ لوگ جو ان کے قریب ہیں ، پھر وہ جو ان کے قریب ہیں ۔‘‘ [1]
یہ حقیقت ہے کہ ہم نے قرآن صحابہ سے سیکھا وہ صحابہ ہی تھے جنھوں نے رسول اﷲ کی احادیث صحیحہ روایت کیں جن پر بیان شریعت کے ضمن میں ہمارا اعتماد ہے۔ جب مذکورہ حدیث کی روشنی میں صحابہ افضل الامت ہیں ۔[2] حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کوفہ کے منبر پر فرمایا :’’حضرت ابوبکر و عمر افضل الصحابہ ہیں ۔‘‘ اس سے ظاہر ہے کہ صحابہ کے بارے میں اہل اسلام کا عقیدہ مذکورہ بالا حدیث اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ارشاد کے عین مطابق ہے۔ علاوہ ازیں تاریخی حقائق بھی اسکی تائید و تصدیق کرتے ہیں ۔ چونکہ ہم نے علوم کتاب و سنت کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ذریعہ حاصل کیا ہے۔ لہٰذا صحابہ کی مدح و تعدیل سے گویا ہمارے اعتماد کتاب و سنت کی تائید ہوتی ہے ، البتہ ابن المطہر اور دیگر شیعہ امامیہ.... جن کو امام زید بن علی بن حسین رافضی کہہ کر پکارتے ہیں .... کا
زاویہ نگاہ اس ضمن میں ہم سے مختلف ہے چنانچہ اس کی تفصیل[آگے] مناسب موقع پر آئے گی۔
حدیث نبوی اور شیعہ:
جو اصول و قواعد ہمارے اور شیعہ کے مابین وجہ فرق و امتیاز ہیں ، ان میں سے ایک بنیادی امر یہ ہے کہ احادیث نبویہ کتاب الٰہی کے بعد تشریع اسلامی کی اساس و معیار ہیں ۔ یہ احادیث ان صحابہ کے ذریعہ ہم تک پہنچیں جو حد درجہ عادل و امین اور حافظ و ضابط تھے۔ فن حدیث کے نقاد ان کی سیرت و کردار اور فنی مہارت سے بخوبی آگاہ ہیں ۔ محدثین نے روایت حدیث میں بے حد احتیاط سے کام لیا۔ جو شخص حد درجہ عبادت گزار اور صلاح و تقویٰ میں یگانہ روز گار ہو، اگر روایت حدیث میں سہل انگاری سے کام لیتا ہو، تو اس کی روایت محدثین کے نزدیک قابل حجت نہیں ہے۔ جو شخص آغاز زندگی میں حافظ و ضابط اور امانت و عدالت کی صفات سے بہرہ ور ہو پھربڑا ہو کر نسیان کے عارضہ کا شکار ہوجائے تو اندریں صورت محدثین کے نزدیک اس کی وہ روایات مقبول ہیں جو اس نے حالت صحت میں اس مرض میں مبتلا ہونے سے قبل روایت کیں ، مرض میں مبتلا ہونے کے بعد کی روایات پایہ استناد سے ساقط ہیں ۔بخلاف ازیں شیعہ روایت حدیث میں امانت و عدالت اور حفظ و اتقان کی
[1] صحیح بخاری، کتاب الشہادات، باب لا یشھد علی شہادۃ جور۔ (ح: ۲۶۵۱۔ ۲۶۵۲) صحیح مسلم ۔ کتاب فضائل الصحابۃ۔ باب فضل الصحابۃ ثم الذین یلونھم، (ح:۲۵۳۳،۲۵۳۵)
[2] مسند احمد(۱؍۱۰۶) سنن ابن ماجہ۔ المقدمۃ۔ باب فضل عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ (حدیث:۱۰۶)