کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 219
وہ صفات کی نفی اور اثبات کو جمع کرتے ہیں ۔ ایک اور مقام پراس پر تفصیلی کلام ہوچکا ہے۔ پس اگر وہ صفات کو ثابت ماننے والے ہیں تو وہ باقی مثبتین کی طرح ہیں ۔ اور اگران کے منکر ہیں تو ان کو جواب میں کہا جائیگاکہ : ’’ سلب تو عدم محض ہے۔ اور امور اضافیہ جیسے کہ اس کا فاعل ہونا ،مبدأ ہونا تو یاتو وہ وجود اور عدم سے عبارت ہیں ۔ کیونکہ وہ مقولہ فعل وانفعال سے ہیں اور یہ مقولہ من جملہ ان اجناس عالیہ کے ہے جو مناطقہ کے نزدیک دس اجناس ہیں ۔ اور جو موجودات کی اقسام ہیں تووہ اضافت جس سے وجود کو موصوف کیا جاتا ہے اس کی صفات اضافیہ وجود ی قرار پائیں گی جو اس کی ذات کیساتھ قائم ہوں گی اور اگر اضافت عبارت ہے عدم محض سے تو سلب میں داخل ہے پس اضافت کو ایساقسم ثالث بنا لینا جو نہ تو وجود سے عبارت ہو نہ عدم سے ،یہ خطا ہے ۔ ایسی صورتحال میں جب انہوں نے واجب الوجود کیلئے کسی صفت وجودی کو ثابت نہیں کیا تو پھر اس کی ذات سوائے امر عدمی کے صفات میں سے کسی بھی صفت کو مستلزم نہ رہی، رہے مخلوقات تو وہ تو موجودات ہیں جن میں سے بعض جواہر اور اعراض ہیں اور یہ تو بداہۃ ًمعلوم ہے کہ واجب اور غیر واجب کا عدمِ محض کا تقاضا کرنا اس کے وجود کے تقاضا کرنے کی طرح نہیں چاہے اس کو استلزام کانا م دیا جائے یا ایجاب نام دیا جائے یا فعل یا اس کے علاوہ کوئی اور نام ،اس لئے کہ کسی چیز کا وجود اس کے ضد کے عدم کو مستلزم ہوتا ہے اور کوئی بھی عاقل اس کا قائل نہیں کہ وہ اپنے ضد کے عدم کی وجہ سے فاعل ہے اور کسی چیز کا وجود اس کے ذات کے عدم کے مناقض ہے اور کوئی بھی عاقل اس کا قائل نہیں کہ اس کا وجود ہی فاعل ہے بوجہ اس کے عدم کے نہ پائے جانے کے کیونکہ اس کے عدم کا معدوم ہونا ہی تو اس کا وجود ہے اور اس کا وجود تو واجب ہے جوکہ نہ مفعول بنتا ہے اور نہ معلول اور یہ بھی (مسلم ہے )کہ عدم محض کیلئے یا تو بالکل کوئی علت ہی نہیں ہوتا جیسے کہ جمہور عقلاء کی رائے ہے یا یہ کہ کہا جائے کہ اس کی علت اس کے وجود کی علت کا نہ پایا جاناہے پس عدم کی علت خود عدم ہی ٹھہری اور عدمِ ممکن کیلئے کوئی علتِ وجودی ثابت نہ ہوئی پس عدمِ واجب بطریقہ اولی کسی علتِ وجودی کی طرف محتاج نہ ہوگی اس لئے کہ عدمِ واجب جو کہ اس کی ذات کے لئے لازم ہے وہ ایک ایساعدم ہے جو واجب ہے پس و ہ کسی علتِ وجودی کی طرف محتاج نہیں کیونکہ عدمِ واجب کے ساتھ تو ممتنع ہی متصف ہوتا ہے اور وہ ممتنع جس کا وجود ممتنع ہو وہ کسی علتِ وجودی کا محتاج نہیں ہوتی اور رب تعالیٰ کے وجود کا عدم اپنی ذات کے اعتبار سے ممتنع ہے جس طرح کہ رب تعالیٰ کا وجود اپنی ذات کے اعتبار سے واجب ہے ۔ پس وہ اس کیلئے علت نہیں بنے گا۔ پانچویں وجہ :....اس کا یہ کہناکہ’’ صفات، احوال اور احکام متکلمین کی مختلف آراء کے اعتبار سے۔‘‘ جواب: ....اللہ تعالیٰ کیلئے صفات کو ثابت ماننا جمہورِ امت کا مذہب ہے سلفاً وخلفاً اور یہی صحابہ اور تابعین کا اور مسلمانوں کے ائمہ کا بھی مذہب ہے۔ اور تمام اہل سنت والجمات اور متکلمین کے دیگر طوائف اور جماعتوں کا