کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 218
حقیقت یہ ہوگی کہ صفات کیلئے کسی ایسے محل کا ہونا ضروری ہے جس کیساتھ وہ قائم ہو ں بخلاف ذات کے۔ لیکن یہ تو اس بات کا تقاضا نہیں کرتا کہ ممکن الثبوت کسی فاعل کا محتاج ہو۔ اور اگر ا سکی مراد واجب الوجود سے ایسی ذات ہے جس کا عدم ممکن نہ ہو۔
ممکن الوجود سے اس کی مراد وہ ہے جس کا وجود اور عدم دونوں ممکن ہوں ؛ تو یہ بات معلوم شدہ ہے کہ جیسے ذات کا معدوم ہونا ممکن نہیں ؛ ایسے ہی صفات کا معدوم ہونا ممکن نہیں ۔ (جس کو آج کل کے فلسفے میں کہتے ہیں کہ مادہ فنا نہیں ہوتا )۔پس وجود کا واجب ہونا ان دونوں کو شامل ہے۔ اور اگر واجب الوجود سے اس کی مراد وہ چیز ہے کہ جس کا کوئی لازم نہ ہوتو پھر وجود میں کوئی ایسی چیز باقی نہیں رہیگی جو واجب الوجود ہو خاص طور پر ان کے قول پر یعنی کہ وہ اپنے مفعولات کو لازم ہے پس وہ و اجب الوجود نہیں ٹھہرے گا اور ان لوگوں کے تناقضات اور ان کے متبعین کے تناقضات جیسے کہ کتاب:’’ المضنون الکبیر‘‘ کے مصنف ؛وہ واجب الوجود کی تفسیر یہ کرتے ہیں کہ وہ ایک ایسی ذات ہے جو غیر کیساتھ لازم نہیں اس سے مقصود ان کا یہ ہے کہ اس کے ذریعے وہ اللہ تعالی کی صفات لازمہ کا نفی کرتے ہیں اور وہ یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم نے یہ کہا کہ اس کی صفات اس کی ذات کیساتھ لازم ہیں تو پھر واجب الوجود نہیں رہیگا اور پھر وہ افلاک اور اس کے علاوہ دیگر اجرام کو اس کیلئے ازلا وابداًلازم قرار دیتے ہیں اور وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ اس کے واجب الوجود ہونے کے منافی نہیں پس ا س بات سے اور بہت بڑا تناقض کون سا ہوگا ؟
تیسری وجہ :.... یہ ایسی واحد ذات جو تما م صفات سے محروم ا ور خالی ہو وہ ممتنع الوجود ہوتی ہے۔یہ مسئلہ کئی مقامات پر تفصیل سے بیان کردیا گیاہے۔ اور یہ بھی بتایاگیا ہے کہ ایسے معانی کا ثبوت ضروری ہے جو ثبوتی ہوں ؛ جیسے اس کا حی ہونا ،عالم ہونا ،قادر ہونا۔ اور یہ بات بھی ممتنع ہے کہ وہ معانی عینِ ذات ہوں ۔کیونکہ جو چیز ممتنع الوجود ہو تو اس کا واجب الوجود ہونا بھی ممتنع ہوتا ہے۔ پس انہوں نے جو اس کے واجب الووجودہونے کا گمان کیا ہے تو یہ ٍممتنع ہے۔ چہ جائیکہ یہ کہا جائے کہ وہ تو اپنے صفات کا فاعل ہے جیسے وہ اپنے مخلوقات کیلئے فاعل ہے۔ اور جس طرح وہ اپنے مخلوقات کیلئے فاعل اور مؤثر ہے؛ اس طرح وہ اپنی صفات کا متقاضی اور ان کو مستلزم اور ان میں مؤثر ہے ۔
چوتھی وجہ یہ کہنا کہ:’’حکماء کے نزدیک وہ امور اضافیہ اور سلبیہ ہیں ‘‘ تویہ ان منکرین ِصفات کی رائے پر ہیں ؛ جو ان میں سے صفات کی نفی کرنے والے ہیں جیسے ارسطو اور اس کے متبعین۔ البتہ بڑے بڑے فلاسفہ صفات کو ثابت مانتے ہیں ۔جیسا کہ کئی مقامات پر ہم اس کا ذکر کرتے آئے ہیں ۔ اور اسی طرح ان کے بہت سے متاخرین ائمہ جیسے ابوالبرکات اور اس کے امثال کا حال بھی ہے۔
یہ بھی (یاد رہے )کہ منکرین صفات جیسے کہ ابن سینا اور اس کےہمنوا؛ان کے اقوال میں تناقض پایا جاتا ہے اور