کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 217
الفاظ پر اعتماد کرنا ممکن نہیں اور فرض کرلیں کہ جس چیز پر عدم سابق نہ ہوتو ا سے فعل نہیں کہا جاتا لیکن یہ تو ثابت ہے کہ جوچیز اپنی ذات کے اعتبار سے ممکن الثبوت ہوتو اس کی کسی ایسے مؤثر کی طرف استناد اور نسبت جائز ہے جو اثر کیساتھ دائم الثبوت ہو۔ اور جب یہ معقول بات ہے تو اس لیے بعض مواضع میں امتناع کا دعوی کرنا ممکن نہیں ؛ الا یہ کہ لفظِ ’’فعل‘‘ کے اطلاق کو اس کا صاحب ممنوع قرار دے۔ یعنی لفظ فعل کا اطلاق اس پر نہ کرے؛مگرا س بات کا کوئی بڑا فائدہ نہیں جس کی طرف رجوع کیا جائے۔
اس حجت سے کئی طرح پر جواب دیا جاسکتا ہے :
۱) معترض کا یہ کہنا کہ: ’’واجب الوجود لذاتہ ایک سے زیادہ ہونا ممتنع ہے۔‘‘ اگر اس سے اس کی مراد یہ ہو کہ : الٰہ ایک سے زیادہ ہونا؛ یا ایک رب سے زیادہ ہونا؛ یا ایک خالق کے علاوہ خالق کا ہونا؛ یا ایک معبود واحد کے علاوہ ہوں ؛ یا ایک حی سے زیادہ حی[زندہ] ہوں ؛ یا ایک قیوم یا ایک صمد یا ایک قائم بنفسہ ذات سے زیادہ ہونا ممتنع ہے تو اِس مراد اور معنیٰ کے اعتبار سے یہ قول صحیح ہے۔
لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کی ایسی صفات ہوں جو اس کے ذات کے لوازم میں سے ہوں اور ان صفات کے بغیر اس کے ذات کا تحقق ممتنع ہو۔ اور اس طرح یہ بات بھی ضروری نہیں کہ وہ واجب الوجود وہی ذات ہو جو ان صفات کو مستلزم ہے۔ اور اس کے واجب الوجود ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے ذات کی وجہ سے موجود ہے اور اس کے پر عدم طاری ہونا بالکل ممتنع ہے۔ اوراس کیلئے نہ کوئی فاعل ہے؛ اورنہ ہی کوئی ایسی چیز ہیجسے علت فاعلہکہا جائے۔ پس بنا پر اس کی صفات اس کے اسم کے مسمیٰ میں داخل ہیں اور ممکن الثبوت نہیں ؛ اس لئے کہ وہ ذات ممکن الثبوت نہیں ؛کہ وہ کبھی موجودہو اور کبھی معدوم۔ اور نہ ہی وہ فاعل کا محتاج ہے؛ اور نہ ہی علت فاعلہ کا۔بلکہ وہ تو اس ذات کے لوازم میں سے ہے جو اپنی صفات لازمہ کیساتھ واجب الوجود ہے پس مدعی کا یہ دعوی کرنا کہ صفات لازمہ ممکن الثبوت ہیں ؛ اور وہ وجودو عدم کو قبول کرتے ہیں یہ ا س دعوی کی مانندہے کہ وہ ذات ملزومہ وجود وعدم دونوں کو قبول کرتے ہیں ۔
اگر اس قول کہ ’’واجب الوجود ایک ہے ‘‘سے مراد یہ ہے کہ واجب الوجود ذات وہ ایک ایسی ذات ہے کہ جو صفات سے خالی ہے؛ تو اس اعتبار سے قول ممنوع ہے؛ نیز اس قائل نے اس پر کوئی دلیل بھی نہیں ذکرکی ۔
وجہ ثانی :.... مدعی کا یہ دعوی کرنا کہ:’’ واجب الوجود صفات سے خالی صرف ذات ہے‘‘ اوراس کی صفات تو ممکن الوجود ہیں ۔ اگر ا واجب الوجود سے اسکی مراد یہ ہے کہ کہ ا سکا عدم بغیر کسی فاعل کے فعل کے ممتنع ہے۔تو ان دونوں چیزوں کا معدوم ہوناکسی فاعل کے فعل کے بغیر ممتنع ہے۔
اگر واجب الوجود سے ا س کی مراد وہ ذات ہے جو قائم بنفسہ ہے؛ اورکسی جگہ کی محتاج نہیں ؛ تو اس کی