کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 216
ہے وہ علت ازلیہ ہوگی تو ا س سے لازم نہیں آتاکہ وہ موجود معین جس کے بارے میں وجود وعدم دونوں کا امکان ہے وہ قدیم ازلی بنے اور اس کا فاعل ازل سے اس کا فعل بنے اس طور پر کہ موجود ات کے فاعل نے کسی چیز کو بھی حادث نہیں کیا ۔اس لئے کہ اس موجود کا عدم پرقیاس کرنا جو کہ واجب قدیم ہے ،ازلی اور خالق ہے اور تمام موجوداتِ مخلوقہ کا فاعل ہے جو صفت استمرار کیساتھ ہے اور مستلزم دوسرے عدم کو جو کہ مستمر ہے تو یہ بہت ہی بڑا فاسد قیاس ہے اور یہ ایک قیاس محض ہے پس کیسے اس تشبیہ فاسد کے ذریعے اس جیسے اصل عظیم میں احتجاج اور استدلال جائز ہے جس کے نتیجے میں رب العالمین کا اپنی مخلوقات کی پیدائش کو عدم کے معدوم کی علت بننے کے مثل قرار دیا جاتا ہے اور یہ تو ان لوگوں کے قول سے بھی زیادہ فساد پر مشتمل ہے جن کے بارے میں اللہ نے یہ فرمایاہے کہ:
﴿ فَکُبْکِبُوْا فِیْہَا ہُمْ وَالْغَاوُونَ (94) وَجُنُوْدُ اِِبْلِیسَ اَجْمَعُوْنَ (95) قَالُوْا وَہُمْ فِیْہَا یَخْتَصِمُوْنَ (96) تَاللّٰہِ اِِنْ کُنَّا لَفِیْ ضَلاَلٍ مُّبِیْنٍ (97) اِِذْ نُسَوِّیکُمْ بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (98) ﴾(شعراء :۹۴تا ۹۸ )
’’پھر وہ اور تمام گمراہ لوگ اس میں اوندھے منہ پھینک دیے جائیں گے۔اور ابلیس کے تمام لشکر بھی۔وہ کہیں گے جب کہ وہ اس میں جھگڑ رہے ہوں گے۔اللہ کی قسم! بے شک ہم یقیناً کھلی گمراہی میں تھے۔جب ہم تمھیں جہانوں کے رب کے برابر ٹھہراتے تھے۔‘‘
پس جب یہ اس شخص کا حال ہے جس نے اس کے اور بعض موجودات کے تسویہ اور برابری کردی ہے تو اس کا کیا حال ہوگا جس نے اس کے اور عدم محض کے درمیان برابری اورتسویہ کردیا ۔
ساتویں دلیل اور اس پررد:
امام رازی فرماتے ہیں : ساتویں دلیل جو ذات واجب الوجود لذاتہ ہو اس کا ایک سے زیادہ ہونا یہ ممتنع ہے۔پس درایں صورت واجب الوجودکی صفات جو کہ حکماء کی رائے پر امور اضافیہ اور سلبیہ ہیں اور متکلمین کی مختلف آراء کے اعتبار سے صفات ،احوال اور احکام ہیں ؛ تو ان میں سے کوئی بھی چیز اپنے عین کے اعتبار سے واجب الثبوت نہیں ٹھہرے گی۔ بلکہ وہ تمام مشتملات کیساتھ ممکن الثبوت فی ذاتہ ہوں گے۔ اور واجب الوجود کی ذات کے اعتبار سے واجب الثبوت ہوں گے۔ پس یہ ثابت ہوا کہ عدم کی سابقیت اور اس کے تقدم پر تاثیر موقوف نہیں ۔
اگر وہ کہیں کہ: صفات اور احکام افعال کے قبیل سے نہیں ؛اور ہم تو افعال میں عدم کی سابقیت کو ثابت کرتے ہیں اور اسے واجب اور ضروری سمجھتے ہیں تو ہم جواب میں کہیں گے کہ اس جیسے مسائل عظیمہ میں محض