کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 214
پہلی وجہ:....تمہارا یہ قول چند سطر پہلے گذر چکا ہے کہ عدم نفی محض کو کہتے ہیں لہٰذااس میں کسی مؤثر کی طرف اصلا کوئی حاجت ہی نہیں اور تم نے اس کو اس حجت میں مقدم قراردیاکہ جو اس سے پہلے بیان ہوا تو تم چند سطر بعد یہ کیسے کہتے ہو کہ معدومِ ممکن کا عدم صرف اور صرف کسی موجب کی وجہ سے ہوتا ہے اور یہ بات بھی ہم نے پہلے بیان کردی ہے کہ مسلمان اور غیر مسلم جمہور اہل نظر یہ کہتے ہیں کہ عدم کسی علت کی طرف محتاج نہیں ہوتا اور میں نے اہل نظر میں سے کسی کو بھی نہیں پایا جس نے ممکن کے عدم کو کسی علت کی طرف محتاج قراردیا ہو سوائے اس گروہ قلیلہ کے جو کہ متاخرین فلاسفہ میں سے ہیں جیسے ابن سینااور اس کے اتباع ورنہ تو یہ قدمائے فلاسفہ کا بھی قول نہیں نہ ارسطو اور نہ اس کے اصحاب کا جیسے برکلس اور اسکندرافرودیسی جو کہ اس کی کتب کا شارح ہے اسی طرح سامسوطوس اور اس کے علاوہ جوفلاسفہ ہیں اور نہ یہ اہل نظر میں سے کسی کا قول ہے جیسے کہ معتزلہ ،اشعریہ اور کرامیہ وغیرہ پس یہ اہل نظر جماعتوں میں سے کسی کا قول نہیں ہے نہ متکلمین کا ،نہ فلاسفہ اورنہ ان کے علاوہ کسی اور کا ۔ دوسری وجہ :.... یہ کہنا محال بات ہے کہ وہ کسی امر خارجی کے بغیر معدوم ہو تویقیناایسی صورت میں وہ اپنی ذات کی وجہ سے یعنی من حیث ہوہومعدوم ہوااور جس چیز کی ماہیت اس کے عدم میں کافی ہو تو وہ ممتنع الوجود ہوتا ہے پس اس کے جواب میں کہا جائیگا کہ یہ ایک باطل تلازم ہے اس لئے کہ جب وہ چیز کسی امر کے بغیر معدوم ہے تو وہ معدوم نہیں ہوا(نہ اپنی ذات کی وجہ سے اور نہ کسی غیر کی وجہ سے )پس تمہارا یہ کہنا کہ ایسی صورت میں وہ اپنی ذات کی وجہ سے معدوم ہوگا ،باطل ہے اس لئے کہ یہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنی ذات کی وجہ سے معدوم ہے حالانکہ اس کی ذات تو اس کے معدوم ہونے میں علت ہے جیسے کہ ممتنع لذاتہ ہوتا ہے اور یہ ہمارے اس قول کے منافی ہے کہ وہ چیز کسی امراور سبب کے بغیرمعدوم ہے پس کیسے کسی چیز کی نفی اس کے ثبوت کو لازم ہوگی ؟ اگر کہا جائے کہ اس کی مرادیا تو یہ ہوگی کہ اس کا عدم کسی امر کی وجہ سے ہے یا کسی امر خارجی کی وجہ سے نہیں ۔ تو جواب یہ ہے کہ یہ تقسیم پوری طرح حصر کرنے والی نہیں اور وہ یہ ہے کہ کوئی چیز کسی علت کے بغیر معدوم ہو۔ تیسری وجہ :.... ان دو اقوال کے درمیان فرق واضح اور معلوم ہے ایک قول یہ کہ اس کی ذات اس کے وجود اور عدم کا تقاضا نہیں کرتی یا اس کے وجود اور عدم کو مستلزم نہیں یا یہ کہ وجود اور عدم کو ثابت نہیں کرتی اور دوسرا قول یہ ہے کہ ہمارا یہ کہنا کہ اس کی ذات اس کے وجود یا عدم کا تقاضا کرتی ہے یا اس کو مستلزم ہے یا اس کیلئے موجب ہے اس لئے کہ جو چیز ایسی ہو کہ اس کی ذات اس کے وجود کو مستلزم ہو تو وہ واجب بنفسہ ہوتا ہے اور جو اس کے عدم کو مستلزم ہو وہ ممتنع ہوتا ہے اورجو چیز ایسی ہو کہ اس کی ذات ان دونوں میں سے کسی کو بھی مستلزم نہ ہو تو وہ نہ واجب نہ ممتنع بلکہ وہ ممکن ہی ہوتا ہے ۔