کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 213
اسی طرح وہ یہ کہتے ہیں کہ عرض اپنے موصوف کی طرف محتاج ہوتا ہے اس وجہ سے کہ وہ ایک ایسامعنی ہے جو غیر کے ساتھ قائم ہے اور یہی معنیٰ موصوف کی طرف احتیاج کیساتھ مقارن ہے۔ چھٹی دلیل اور اس پررد اما م رزای رحمہ اللہ فرماتے ہیں :چھٹی دلیل : ممکن چیز جب موجود نہ ہوتو اس کا عدم یا تو کسی امر کی وجہ سے ہوگا یا کسی امراور مؤثر کی وجہ سے نہیں ہوگا۔ یہ تو محال ہے کہ وہ کسی امر کی وجہ سے نہ ہو۔ یعنی بلا کسی خارجی امر کے وہ معدوم ہو۔ اس لئے کہ ایسی صورت میں اپنی ذات کے اعتبار سے وہ معدوم ہو جائیگا یعنی اپنی حیثیت کے اعتبار سے وہ معدوم ہوا۔ اور وہ تمام چیزیں جن کی ماہیت ان کے معدوم ہونے میں کافی ہوتی ہیں وہ ممتنع الوجود کہلاتا ہے لہٰذاممکن چیز ممتنع الوجود ثابت ہوا اور یہی دلیل خلف ہے۔ پس یہ بات واضح ہو گئی کہ ممکن کا عدم کسی امر یا مؤثر کی وجہ سے ہوگا۔ پھر وہ امر جو مؤثر ہے وہ دوحال سے خالی نہیں ۔ یا تو اس کی تاثیر میں تجدد شرط ہوگی یا نہیں ہوگی ۔ یہ محال ہے کہ اس کی تاثیر میں تجددشرط قرار دی جائے۔ اس لئے کہ ہماراکلام اس عدم سابق کی صورت میں مفروض ہے جو اس کے وجود پر مقدم ہے۔ اور وہ عدم جو متجددہے یعنی دھیرے دھیرے وجود میں آتا ہے وہ وہ عدم ہے جو وجود کے بعد ہوتا ہے لہٰذاممکنات کے عدم میں کسی ایسے چیز کی طرف استناد کی شرط نہیں ہوگی جو اس کے عدم کا تقاضا کرتے ہوں اور نہ اس کے تجدد کی شرط ہوگی اور عدم چونکہ ممکن ہے لہٰذاوہ بغیر شرطِ تجدد کے کسی مؤثر کی طرف مستند اور منسوب ہوتا ہے تو ہم نے جان لیا کہ حاجت اور افتقار تجدد پر موقوف نہیں اور یہی تو ہمارا مطلوب ہے ۔ جواب:.... یہ بات عجائب میں سے بلکہ بہت بڑے مصائب میں سے ہے کہ اس جیسے ہذیان اور بکواس کو اس مذہب میں برہان قرار دیا جائے وہ مذہب جس کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی چیز کو پیدا نہیں کیا بلکہ حوادث خود بخود بغیر کسی خالق کے حادث ہوتے ہیں اور اہل ملل کے ادیان کے ابطال میں اور اگلے پچھلے سارے عقلاء کے ادیان کے ابطال میں یہ حجج باطلہ اور اس کے امثال بہت سے افاضل اور بہت سے عقل مند اور اہل علم لوگوں کو اس حق صریح سے روکنے والے بنتے ہیں جو کہ صریح عقل اورصحیح نقل کے موافق ہوتا ہے بلکہ یہ اس کے قائلین کو عقل سے خارج کردیتے ہیں اور دین سے بھی ایسے نکال لیتے ہیں جیسے کہ کوئی بال گوندھے ہوئے آٹے سے نکالا جاتا ہے کبھی تو جحودوانکار کے ذریعے اور کبھی شکوک وشبہات اور تردد کے ذریعے لہٰذا ہم اس بات کی طرف محتاج ہوئے کہ ہم اس مذہب کے بطلان کو بیان کریں کیونکہ یہ ظاہر الفساد عقلاونقلااور اس میں عقول اور تمام ادیان کو ضرر بھی لاحق ہے ایسا ضرر کہ جس کا احاطہ اور سد باب صرف اور صرف رحمان کی ذات ہی کرسکتا ہے اور جواب کئی وجوہ سے ہے ۔