کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 211
جواب میں کہا جائیگا کہ کیا تمہاری مراد یہ ہے کہ اس کی علت کا نہ ہونا مستلزم ہے اس کے عدم کو اوروہ دلیل ہے اس کے عدم پریا مراد یہ ہے کہ اس کی علت کا عدم ہی وہ چیز ہے جس نے اس کو خارج میں معدوم بنا دیا پس پہلی مراد تو صحیح ہے لیکن اس کے تو تم قائل نہیں اور دوسری بات درست نہیں اس لئے کہ وہ عدم جو صفت استمرار کیساتھ ثابت ہے اس کا علت کی طرف احتیاج اسی طرح ہے جس طرح عدم العلۃ کا علت کی طرف اور یہ بداہۃ ثابت ہے کہ جب کہا جائے کہ علت کے معدوم ہونے کی وجہ سے فلان چیز معدوم ہوا تو کہا جائیگا کہ وہ عدم بھی تو اس کے علت کے عدم کی وجہ سے ہے اور یہ امر علل اور معلولات میں تسلسل کا تقاضا کرتی ہے اور وہ صریح عقل کی بنا پر باطل ہے لہٰذا اس کا بطلان تو ظاہر ہے لیکن مقصود تو ان مخالفین یعنی ملحد فلاسفہ کے بعض تناقضات کو بیان کرنا ہے جو کہ صریح معقول اور صحیح منقول کے ساتھ معارض ہیں ۔
اسی طرح اس کا یہ کہنا کہ اس کا مسبوق بالعدم ہونا ایک کیفیت ہے جو وجود کو اس کے حصول (یعنی وجود میں آنے کے بعد)کے بعد پیش آتی ہے اور وہ اس کیساتھ لازم ہے لیکن علت نہیں تو اسے کہا جائیگا یہ کوئی صفت ثبوتیہ تو نہیں بلکہ یہ تو ایک صفت اضافیہ ہے جس کا معنی یہ ہے کہ وہ موجود ہوا بعد اس کے کہ وہ معدوم تھا پھر اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ وہ اس کیلئے صفت لازمہ ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ وہ مؤثر کی طرف احتیاج پر ایک دلیل ہے اور یہ بھی ملحوظ رہے کہ تم نے اِس کو اُس کے احتیاج کی علت فرض کرلیا ہے اور احتیاج کا معلول فرض نہیں کیا پس اس کا غنی ہونا اس کی علت بننے سے مانع نہیں ہے بلکہ اس کے معلول ہونے سے مانع ہے ۔
اگر وہ یہ کہے کہ یہ تو اس کے احتیاج اور افتقار سے مؤخر ہے اور متاخر متقدم کیلئے علت نہیں بنتا۔
تو جواب میں کہا جائیگا کہ : یہ بات میں نے اس مقام کے علاوہ اور کئی مقامات پر ذکرکر دی ہے اور اس کا جواب یہ ہے کہ وہ افتقار اور احتیاج پر دلیل تو ہے لیکن اس کیلئے موجب نہیں ۔ اورباتفاق عقلاء دلیل اپنے مدلول سے مؤخر ہوتی ہے۔
اگر کہا جائے کہ اگر حدوث مؤثر کی طرف افتقار اور احتیاج پر دلیل ہے۔ تو یہ بات لازم نہیں آتی کہ ہر مؤثر کی طرف محتاج حادث ہی بنے۔ اس لئے کہ دلیل میں اس کا عموم واجب ہے ،اس کا عکس واجب نہیں ۔
تو جواب میں کہا جائیگا کہ :ہاں اس اعتبار سے دلالت کی انتفاء دوسرے وجوہ سے دلالت کی نفی نہیں کرتی ۔ مثال کے طورپر یہ کہا جائے کہ فاعل کی طرف اس کے احتیاج کی شرط اس کا محدث اور حادث ہونا ہے اور شرط تومشروط کیساتھ مقارن ہوتا ہے اور یہ بھی ان امور میں سے ہے جن کے ذریعے اتصال واقتران کو بیان کیا جاتا ہے پس کہا جائیگا کہ احتیاج کی علت جو کہ افتقار واحتیاج کے شرط کے معنی پر ہے وہ اس کا حادث یا ممکن ہونا یا دونوں کا مجموعہ ہے اور یہ سب کے سب حق ہیں اور مثال کے طور پر یوں کہا جائے کہ وہ علت جو فاعل کی طرف