کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 210
اس کی ذاتی ہے ایسے ہی تمام ممکنات کا احتیاج اور افتقار ان کے ذوات کے لوازمات میں سے ہے اور اس کی کوئی خارجی حقیقت نہیں الا یہ کہ جب وہ موجود ہو جائیں کیونکہ معدوم تو کوئی چیز ہی نہیں پس جو اللہ کے ماسوی ہیں وہ اس کی طرف صفت دوام کیساتھ محتاج ہیں اپنے حدوث (ابتدائے وجود )اور بقا ء دونوں حالتوں میں ۔ اگر فاعل کی طرف احتیاج سے مراد یہ ہے کہ اس سے افتقار اور احتیاج پر استدلال کیا جاتا ہے تو جواب میں کہا جائیگا کہ عدم کے بعد کسی چیز کا حادث ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ کسی ایسے محدث اور موجدکی طرف محتاج ہے جو اس کو وجود دے اور اس کا ایسا ممکن ہونا کہ اس کے وجود کو عدم پرترجیح صرف اور صرف کسی مرجح تام کی وجہ سے حاصل ہو یہ اس بات پر دلیل ہے کہ وہ ایک ایسے واجب کی طرف محتاج ہے جو اس کو از سرنو وجود دیتا ہے اور اس کا ممکن اور محدث (بالفتح)ہونا ایک دوسری دلیل ہے تو یہ دو دلیلیں ہو گئیں کیونکہ ان دونوں میں سے ہر ایک اس کے افتقار اور احتیاج پر دلیل ہے اور یہ صفات اور اس کے علاوہ دیگر صفات جیسے کہ اس کا حادث ہونا ، محتاج ہونا ،مخلوق ہونا اور اس کے امثال ،یہ خالق کی طرف اس کے احتیاج پر دلیل ہیں پس خالق کی طرف احتیاج پر ادلہ بہت زیادہ ہیں اور وہ اپنے ذات کی وجہ سے محتاج الیہ ہے نہ کہ کسی سبب آخر کی وجہ سے اور جب صورتحال اس طرح ہے تو ممکن ہے کہ کہ یہ کہا جائے کہ خود اس کا وجودخالق کی طرف اس کے احتیاج پردلیل ہے اور اس کا عدمِ سابق اس کے خالق کی طرف اس کے افتقارپر دلیل ہے اور اس کا موجود ہونا عدم کے بعد،یہ بھی خالق کی طرف اس کے افتقار پر دلیل ہے پس ان تمام اقسام میں کوئی منافات نہیں اور اس بنا پر یہ کہنا صحیح نہیں کہ عدم تو ایک نفی محض ہے لہٰذا اس کیلئے کسی مؤثر کی طرف اصلا کوئی حاجت نہیں اور یہ اس لئے کہ جب ہم نے اس کے عدم کو اس بات پر دلیل قرار دیا کہ وہ عدم کے بعد تب ہی موجود ہوسکتا ہے جب کوئی ایسا فاعل پایا جائے جو اس کے عدم کو مؤثر کی طرف محتاج بنا دے بلکہ مسلمان اہل نظر تو یہ کہتے ہیں کہ ممکن صرف اپنے وجود میں مؤثر کی طرف محتاج ہوتا ہے اور رہا اس کا عدم جو کہ مستمر ہوتا ہے تو اس میں وہ کسی مؤثر کی طرف محتاج نہیں ہوتا اور یہ جو فلاسفہ ہیں ابن سینا اور اس کے متبعین جیسے امام رازی وغیرہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ممکن کے دو طرفین (وجود وعدم )میں ایک کے راجح ہونے کیلئے کسی مرجح کا ہونا ضروری ہے لہٰذا عدم کے وجود پر راجح ہونے کیلئے بھی کوئی مرجح ضروری ہے جیسے کہ وجود کے راجح ہونے کیلئے کسی مرجح کا ہونا ضروری ہے اور پھر انہوں نے یہ بھی کہا کہ عدم کا مرجح عدم المرجح (یعنی وجود کا مرجح نہ پایا جانا )ہے پس اس کے معدوم ہونے کی علت اس کے وجود کی علت کا نہ پایا جانا ہے اور مسلمان اہل نظر اس بات پر نہایت سختی سے نکیر اور رد کرتے ہیں جس طرح کہ قاضی ابو بکر ،قاضی ابو یعلی اور ان کے علاوہ مسلمان اہل نظر نے ذکر کیا ہے اور یہی بات درست ہے ۔ ان لوگوں کا یہ کہنا کہ اس کی علت (یعنی وجود کی علت )کا نہ پایا جانا ہی اس کے عدم کی علت ہے تو ان کے