کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 209
کہ عدمِ سابق وجود کا مقتضی ہو اس لئے کہ عدم تو نفی محض ہے لہٰذا اس کیلئے مؤثر کی طرف کوئی حاجت ہی نہیں اور یہ بھی محال ہے کہ وہ اس کا مسبوق بالعدم ہونا ہواس لئے وجود کا مسبوق بالعدم ہونا ایک ایسی کیفیت ہے جو وجود کو ضرور بالضرورپیش آتی ہے ۔
اس لئے اس کا مسبوقیت بالعدم کی صفت پر وقوع ایک ایسی کیفیت ہے جو وقوع کے بعد لازم ہو جاتی ہے اوریہ بات محال ہے کہ وہ اس حالت کے بغیر واقع ہوجائے اور واجب تو مؤثر سے غنی اورمستغنی ہے پس مفتقر اور محتاج وجودہی ہوا اور وجود تو ماہیت کیلئے عارض ہے لہٰذا فاعل کی طرف محتاج ہونے میں عدم کے تقدم کا اعتبار نہیں کیاجائیگا ۔
جواب: یہ کہا جائے کہ مؤثر کی طرف محتاج ہونا خواہ کسی بھی وجہ سے ہواگر اس سے اس کی مراد اس سبب کا اثبات ہے جس کی وجہ سے مؤثر کی طرف وہ محتاج ہوا ہے یا یہ اس سے اس کا ارادہ ایسی دلیل کو ثابت کرنا ہے جو مؤثر کی طرف محتاج ہونے پر دلالت کرتا ہے تو جو چیز تعلیل کے طریقے پر حرف لام کیساتھ مقرون ہوتا ہے وہ کبھی وجود خارجی کیلئے علت بنتا ہے اورکبھی وجود ذہنی کیلئے اور اس کو دلیل اور برہان کہتے ہیں اور قیاس الدلالۃ اور برہان الدلالۃ کہتے ہیں اور پہلے کے ذریعے استدلال کیا جائے تو اسے قیاس العلۃ اور برہان العلۃ کہتے ہیں اور برہان لمی کہتے ہیں اس لئے کہ وہ خارج میں اثر کی علت کا فائدہ دیتا ہے اور ذہن میں بھی پس کسی قائل کا یہ کہنا کہ مؤثر کی طرف افتقار اور احتیاج یا توبوجہ حدوث یا بوجہ امکان کے ہوگا یا ان دونوں کے مجموعے کی وجہ سے ہوگا اور متاخرین میں ایک جماعت جو اقوال ثلاثہ ذکر کرتی ہے اس کی حقیقت یہ ہے کہ کیا تم نفس الامر میں موجود علتِ موجبہ سے بحث کرتے ہو اس افتقار کی وجہ سے یا اس افتقار اور احتیاج پر دلالت کرنے والی دلیل سے بحث کرتے ہو ؟
اگر تمہاری مراد پہلی بات ہے تو تمہیں کہا جائیگا کہ یہ بات تو فاعل کی طرف مفعول کے احتیاج کے ثبوت کی فرع ہے اور مبحوث عنہا تو ایک دوسری علت ہے جسے تم نے ثابت نہیں کیا بلکہ کسی قائل کیلئے یہ بھی گنجائش ہے کہ وہ یہ کہے کہ اللہ کے علاوہ تمام موجودات اپنی ذات کے اعتبار سے اس کی طرف فقیر اور محتاج ہیں اور اس کی حقیقت (وجود)کسی علت کی وجہ سے نہیں جس نے اس کی ذات کو موجود کردیا اور اس کی حقیقت اللہ کی طرف محتاج ہے اور یہ بات تو معلوم ہے کہ ہر ایسا حکم اور ہر ایسی صفت جس سے ذوات کو موصوف کردیا جاتا ہے اس میں یہ واجب نہیں کہ وہ کسی علت کی وجہ سے ثابت ہو اس لئے کہ یہ تو تسلسلِ ممتنع کو مستلزم ہے کیونکہ اللہ کے ماسوا تمام کااس کی طرف احتیاج اورافتقار ایک ایسا حکم اور صفت ہے جو ماسوی اللہ کیلئے ثابت ہے پس جو بھی اس کے ماسوی ہے خواہ اسے محدث کہا جائے یا ممکن یا مخلوق کہا جائے یا ا ن کے علاوہ کوئی اور نام دیا جائے وہ اللہ کی طرف محتاج ہے اور کسی بھی طور پراور کسی بھی حال میں اللہ سے اس کی استغنا ء ممکن نہیں بلکہ جس اللہ تعالیٰ کی استغنا ء اور بے نیازی