کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 207
ایک جزء ذاتی ہے اور جز ء ذاتی مرفوع اور ختم نہیں ہوتا اور جب حادث کے حدو ث کے امکان سے( اس حیثیت سے کہ وہ حادث ہے )اس کا حدوث سے خروج لازم نہیں آتا تو یہ حجت بھی باطل ہو گئی ۔ یہ ایسا شک ہے کہ اس کا حل کرنا ضروری ہے ۔ جواب:....میں کہتا ہوں کہ یہ شک وہی معارضہ ہے جس پر کتب کلامیہ میں اعتماد کیا گیا ہے جیسے کہ ’’اربعین ‘‘اور اس کے دیگر کتابیں اور اسی پر آمدی نے ’’دقائق الحقائق ‘‘ میں اور اس کے علاوہ دیگر کتب میں بھی اعتماد کیا ہے اور یہ دو وجہ سے باطل ہے : (۱) یہ کہ اس میں ان کے حجت کا کوئی جواب مذکور نہیں بلکہ یہ تو ایک محض ایک اعتراض ہے ۔ (۲) اس کے جواب میں یہ کہا جائیگاکہ :’’یہ کہنا کہ حادث کا جب ہم اس حیثیت سے اعتبار کریں تو کیا اس سے تیری مراد یہ ہے کہ جب اس بات کو فرض کر لیا جائے کہ سارے کے سارے حوادث کیلئے کوئی اول ہے پس جب اس کے ساتھ اس کے امکان کا اعتبار بھی کیا جائے تو پھر تو ان کا کوئی اول نہ ہوا یا تمہاری مراد یہ ہے کہ ہر حادث جس کا تو اعتبار کرتا ہے جب اس کے امکان کا اعتبار کیا جائے ؟ اگر تمہاری مرادپہلی بات ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم اس تقدیر اور فرض کے امکان کو تسلیم نہیں کرتے اس لئے کہ تم نے پہلے یہ بات مان لی کہ ہر حادث کیلئے کسی اول کا ہونا ضروری ہے اور تما م کے تما م حوادث مسبوق بالعدم ہیں اور یہ بات بھی (مان لی )کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ فاعل نے کسی چیز کو پیدا کردیا ہو اور پھر خود اس فاعل کا احداث کیا گیا ہواس کو بھی تم نے تسلیم کرلیا کہ ایسا نہیں ہو سکتا اور ان دونو ں باتوں کو تسلیم کرنے کے باوجود تم نے اس بات کو فرض کرلیا کہ اس کا احداث ازل سے ممکن ہے اور ہم تو ان دو باتوں کے درمیان جمع کے امکان کو تسلیم نہیں کرتے ۔تم نے تو ازل میں اس کے حدوث کے دوام کو اس وجہ سے ممنوع قرار دیا کہ ایسے حوادث ممتنع ہیں جن کیلئے کوئی اول نہ ہو اور اس امتناع کے باوجود یہ بات محال ہے کہ ازل سے احداث ممکن ہو پس تم نے حوادث کے دوام کے امکان کو فرض کرلیا باوجودیکہ ان کا دوام ممتنع ہے اور یہ تو اجتماع نقیضین کو فرض کرنا ہے ۔ اور اگر تمہاری مرادیہ کہ کسی حادثِ معین کا حدوث مراد ہے ۔تو ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ اس کا امکان ازلی ہے بلکہ یہ ممکن ہے کہ ہر حادثِ معین کا حدوث ایسی شروط کیساتھ مشروط ہو جو اس کی ازلیت کے منافی ہو اور یہی نفس الامر میں بھی واقع ہے جس طرح کہ بہت سے حوادث میں یہ بات معلوم ہے اس لیے کہ جو کسی مادہ سے مخلوق اور پیدا ہو اس کا حدوث اس مادہ کے وجود سے پہلے ممتنع ہے لیکن اس حجت کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ یہ کسی معین چیز کے قدم کا تقاضا نہیں کرتا جس طرح کہ ایک اور مقام پر اس کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے پس اس سے ممکنات میں کسی چیز معین کا قدم لازم نہیں آتا ۔