کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 205
جواہر کی مبدأ جوہر کے علاوہ کوئی اور چیز ہواور مبدأجواہر بھی جوہر ہی ہو تاہے نیزتما م موجود اشیاء کیلئے بھی جوہر مبدأ ہے اور ما قبل میں اس بات کی تصریح کرنا غلط ثابت ہوا اس لئے کہ باقی تمام اشیاء تو حوادث اور جوہر کیلئے حالات اور عوارض ہیں اور اس کیلئے حرکات ہیں اور یہ بات بھی مناسب ہے کہ ہم اس جوہر سے بحث کریں جو پورے جسم کو حرکت دیتا ہے کہ وہ کیا ہے ؟
کیا یہ ضروری کہ ہم یہ بات طے کریں کہ جوہر وہ نفس یا وہ عقل یا ان دونوں کے علاوہ کوئی غیر ہے بعد اس کے کہ ہم اس بات سے بچیں کہ ہم اس مبدأ اول پر اُن اَعراض میں سے کسی چیز کا حکم لگائیں جو اشیائے موجودہ کے اواخر کو لازم ہوتے ہیں لیکن اشیائے موجودہ کے اواخر میں کبھی ایسی چیز بھی پائی جاتی ہے جو بالقوۃ ہوتی ہے یا یہ کہ وہ چیز مختلف اوقات میں مختلف حالات پر ہوتی ہے اور یہ بھی کہ وہ حالت واحدہ پر دائم نہیں رہتی اور وہ اشیاء جو کون اور فساد کو قبول کرتے ہیں یہ وہی ہیں جو اسی حال میں پائے جاتے ہیں اس لئے توُ کبھی کسی معین چیز کو ایک بار بالقوۃپاتا ہے اور ایک بار بالفعل اس کی مثال یہ ہے کہ خمربعد اس کے کہ انگور کے پانی کو جوش آکر اس میں نشہ آجائے تو خمر بالفعل موجود ہوااور کبھی دوسرے وقت وہ بالقوۃ موجود ہوتا ہے جبکہ وہ رطوبت جس سے وہ متولد ہوتی ہے وہ انگور میں ہوگویا کبھی وہ بالفعل موجود ہوتا ہے اور کبھی ان عناصر میں بالقوۃ پایا جاتاہے جن سے وہ پیدا ہوتا ہے ۔
جب ہم کہتے ہیں کہ بالقوۃ یا بالفعل؛ تو اس سے ہماری مراد صورت اور عنصر کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ۔ اور صورت سے ہماری مراد وہ ہے جس کا صورت اور عنصر کے مجموعے سے جدا ہونا ممکن ہو۔صورت منفردہ کی مثال جیسے کہ روشنی اور اندھیرا جبکہ ان کا وجود ہوا اور فضا سے منفرد اورجداہو اور ان دونوں سے مرکب جیسے بدن صحیح اور بدن سقیم اور عنصر سے ہماری مراد وہ چیز جس میں دونوں حالتوں کا احتمال ہو جیسے کہ بدن کہ کبھی وہ صحیح ہوتا ہے۔
کبھی مریض پس یہ چیز جو کبھی بالفعل اور کبھی بالقوۃ موجود ہوتی ہے یہ اشیائے مرکبہ میں موجود عناصر میں مختلف ہوتا رہتا ہے میری مراد ہے صورت اور عنصر۔لیکن ان اشیاء میں بھی جوا شیائے مرکبہ کی حقیقت سے خارج ہوتے ہیں یعنی وہ اشیاء جن کا عنصر ان اشیاء کے عنصر کے غیر ہوتا ہے جن سے وہ مرکب ہوتی ہیں اور نہ اُس کی صورت اُن کی صورت کے موافق ہوتی ہے بلکہ ان کے غیر ہوتی ہے پس جب تو سبب اول کے بارے میں بحث کا ارادہ کرے تو مناسب ہے کہ تیرے ذہن میں یہ بات ملحوظ رہے کہ بعض علل محرکہ اس چیز کیساتھ صورت میں موافق ہوتی ہیں جو متحرک ہوتا ہے اور اس کے قریب ہوتی ہیں اور بعض سے ابعد ہوتی ہیں رہا علت قریبہ تو اس کی مثال جیسے کہ اب ہے اور شمس علت ابعد ہے اور شمس سے بھی ابعدفلک مائل ہے اور یہ چیز حادث کے لئے عنصر کے طریقے پر علل نہیں اور نہ عدم کے طریقے پر علل ہیں اور رہا صورت کے طریقے پرلیکن یہ محرک ہیں اور یہ محرک اس طور پر نہیں کہ وہ صورت میں موافق ہیں اور قریب ہیں مثل اب کے بلکہ وہ تاثیر کے اعتبار سے ابعد اور اقویٰ