کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 204
کے بطلان پر استدلال کرتے ہیں جو نفیِ تاثیر کا تقاضا کرتے ہیں اور ممکن کے وجود کو عدم پر ترجیح کی نفی کا تقاضا کرتے ہیں اسی طرح بوجہ کسی حکمت کے اس کے فاعل ہونے کی نفی پر یا بلا کسی حکمت کے فاعلیت کی نفی پر دلالت کرتے ہیں اور اس کے علاوہ وہ امور جو اس باب میں ذکر کیے جائیں گے بے شک وہ تمام کے تمام اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ عالم میں کوئی شے بھی حادث نہ ہو اور یہ تو مشاہدہ اور حس کے خلاف ہے اور ہر ایسی حجت جو مشاہدہ اور حس کے خلاف ہو تو وہ سفسطی دلائل کے ذیل میں آتے ہیں اور یہ تمام کے تمام اس بات پر متفق ہیں کہ منجملہ علل میں سے ایک عدم بھی ہے اور یہ ارسطو سے منقول ہے ،ارسطو نے مقالہ’’ لام ‘‘میں جو کہ اس کے فلسفہ کی منتہا ہے اس میں کہا ہے اور وہ مابعد الطبیعہ کا علم ہے چنانچہ اس کا کہنا یہ ہے:
’’اور رہا مناسبت کے طریقے پر تو مناسب ہے۔۔بشرطیکہ ہم اس بات کی کلی اتباع کرنے والے ہوں جو ہم نے بیان کی ۔۔ تو مناسب ہے کہ ہم اس بات کو بیان کرلیں کہ تمام اشیاء کے مبادیٔ تین چیزیں ہیں :
ایک عنصر دوسری صورت تیسرا عدم جو امرمحسوس اور مشاہد ہے اس کی مثال یہ کہ گرمی صورت کی نظیر ہے ،سردی عدم کی نظیر اور عنصر وہ چیز ہے جس کو سردی اور گرمی بالقوۃ لاحق ہوتے ہیں اور کیف کے باب میں اس کی مثال یہ ہے کہ بیاض صورت کی نظیر ہے ،کالا رنگ عدم کی نظیر ہے اور وہ چیز جو ان دونوں کیلئے وضع ہے یعنی وہ سطح جو عنصر کے بمنزلہ ہے اور ضوء یعنی روشنی یہ صورت کی نظیر ،اندھیرا عدم کی مثال ہے اور وہ جسم جو روشنی کو قبول کرنے والا ہے وہ ان دونوں یعنی روشنی اور اندھیرے کیلئے موضوع ہے پس علی الاطلاق یہ بات ممکن نہیں کہ تو ایسے عناصر کوباعیانہا پالے جو اپنی ذات کے اعتبار سے تمام اشیاء کیلئے عناصر اور مادہ ہوں اور ہمارا مطلوب اس وقت اشیائے موجودہ کے عنصر کا طلب کرنا نہیں بلکہ ہماارا مقصود تو اس کے مبدأ کو طلب کرنا ہے اور وہ دونوں اسکے لئے سبب ہیں تاہم مبدأ کے بارے میں یہ بات ممکن ہے وہ کسی چیز کی حقیقت سے خارج پایا جائے جیسے کہ سببِ محرک ہوتا ہے رہے عناصرتو ان کے بارے میں یہ ممکن نہیں کہ وہ ان اشیاء کی حقیقت سے خارج میں پائے جائیں جن کیلئے وہ جسم اور جوہر ہیں اور جو بھی چیز عنصر اور جسم ہو تو اس بات سے کوئی مانع کہ اس کیلئے کسی چیز کو مبدأ قرار دیا جائے اور جو چیز مبدأ ہو تو اس کیلئے عنصر نہیں ہوتا لامحالہ اور یہ اس لئے کہ وہ مبدأ جو کہ محرک ہے اس کے بارے یہ ممکن ہے کہ وہ محرک سے خارج ہو لیکن اشیائے طبعیہ کامحرکِ قریب صورت کے مثل ہے اور یہ اس لئے کہ ایک انسا ن دوسرے انسان سے پیدا ہوتا ہے ،رہے اشیائے وہمیہ تو صورت یا عدم اس کی مثال طب اور اس سے ناواقفیت ہے اور بنا یعنی عمارت اور اس سے جہل ہے اور ایسے امور میں سبب محرک صورت ہوتی ہے اسی وجہ سے تو طب ایک اعتبار سے صحت ہے اس لئے کہ وہی محرک ہے اور بیت کی صورت من وجہ بنا بھی ہے اور انسان انسا ن ہی سے پیدا ہوتا ہے اور ہمارا مقصود محرک قریب کوطلب کرنانہیں بلکہ ہمارا مقصود تو اس محرک کو طلب کرنا ہے جس سے تمام اشیاء کو حرکت حاصل ہوتی ہے پس معاملہ اس میں واضح ہے یعنی یہ کہ وہ جوہر ہے اور یہ بات ممکن نہیں کہ