کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 203
عدمِ سابق پر جو اس کے وجود سے پہلے ہے باوجود یہ کہ وہ عدم اس کے ساتھ مقارن نہیں ۔ اگر یہ اپنی حجت کو عام کردیں تو ان پر اس بات کا الزام آئے گا کہ کوئی بھی حادث وجود میں نہ آئے اور یہ تو مکابرہ ہوا اور قد معالم سے متعلق اکثر دلائل میں ان کا یہی حال ہے ۔ اس لیے کہ ان کا مقتضیٰ تو یہ ہے کہ کوئی شے بھی وجود میں نہ آئے حالانکہ عالم میں حوادث کا حدوث معاین اور ایک امر مشاہدہے یعنی دیکھا جاتا ہے پس ا ن کے دلائل کا حال وہی ہے جو سفسطائی دلائل کا ہے ۔ ازل میں مؤثر تام ہونے سے ان کی طرف سے پیش کی جانے والی ادلہ میں سے بڑی دلیل جس سے یہ اس بات پر استدلا ل کرتے ہیں کہ ہر مؤثر تام اپنے اثر کو مستلزم ہوتاہے ہیں یقیناً اس کامقتضیٰ یہ ہے کہ کوئی بھی شے حادث نہ ہو اور یہ واضح گمراہی ہے کیونکہ انہوں نے موثرِمطلق اور صرف ممکنا ت میں موثر کے درمیان فرق نہیں کیا پھر جب انھو ں نے کہا کہ اس کا موثر ہونا یا تو اس کی ذاتِ مخصوصہ کی وجہ سے ہے یا اس کے ساتھ کسی امر لازم کی وجہ سے ہے یا امرِ منفصل کی وجہ سے ہے اور ثالث تو ممتنع ہے کیونکہ وہ منفصل تو اس کے منجملہ آثار میں سے ہے لہٰذایہ بات ممتنع ہوئی کہ وہ اس پر موثر قرار پائے کیونکہ علل میں دور ممتنع ہے اور اول اور ثانی تقدیر پر تو اس کے موثر ہونے کا دوام لازم آئے گا ۔ تو ان کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ اس کے ممکن ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ ہر اس شے کے وجود میں موثر ہے جو اس سے صادر ہوتی ہے اور اس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ وہ عالم میں کسی شے معین میں موثر ہے اور اس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ وہ فی الجملہ موثر ہے مثال کے طور پر وہ ایک شے کے بعد دوسرے میں موثر بنتے ہیں ۔ اول اور ثانی توازل میں ممتنع ہیں خاص طور پر اول ،اس لیے کہ اس کا کوئی بھی عاقل قائل نہیں (اول سے مراد ہے اس کی ذات مخصوصہ کی وجہ سے موثر بننا ) اورازل میں ہر شے میں اس کی تاثیر پر کوئی حجت دلالت نہیں کرتی اور نہ ہی ازل میں کسی شے معین کے اندر تاثیر پر دلالت کرتی ہے ،رہی تیسری بات تو یہ ان کے اندر قول کے منافی اور ضد ہے ،ان کے موافق نہیں بلکہ یہ تو اس کے ماسوا ہر شے کے حدوث کا تقاضا کرتی ہے اس لیے کہ جب اس ذات کی تاثیر اس کی ذات کے لواز م میں سے ہے حالانکہ عالم میں حوادث نظر آرہے ہیں یعنی تواتر سے ثابت ہیں اور روزمرہ دیکھے جاتے ہیں بلکہ صفتِ احداث ہی کے ساتھ تاثیر معقول ہے لہٰذا احداثِ ثانی اول کے سابقیت کے ساتھ مشروط ہوا یعنی اول سابق بنے تو تب دوسرااحداث وجود میں آئے گا اور اسی طرح اس کے انقضا ء (اختتام)کے ساتھ مشروط ہوا اوریہ شیئاً فشیئا ًاس کے ذات کے لوازم میں سے ہے پس اس دلیل میں ایسی کوئی بات نہیں جو ان کے قول پر دلیل بنے اور نہ اُس امر پر جو اس بات کے مناقض اور ضد ہو جس کی رسولوں نے خبر دی ہے اگرچہ جہمیہ اور قدریہ کے اہلِ کلام میں سے ایک گروہ کے قول پر دلالت کرتا ہے جو کہ دینِ اسلام میں ایک محدث اور بدعت ہے ،اسی طرح وہ بات جس سے یہ احداث ،تاثیر اور اس طرح کے دیگر ان شبہات