کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 202
اس بات پر ابن سینا اور دیگر فلاسفہ کے دلائل کہ فعل میں عدم کا تقدم ضروری نہیں پہلی دلیل اور اس پر رد : متاخرین فلاسفہ میں سے یہ چھوٹی سی جماعت جن کا عقیدہ ہے کہ فعل کے اندر عدم کا تقدم شرط نہیں انہوں نے اس کے لیے ایسے دلائل ذکر کیے ہیں جن کو ابن سینا اور دیگر متاخرینِ فلاسفہ نے ذکر کر دیا ہے اور امام رازی نے اپنے مباحثِ مشرقیہ میں ان کو تفصیل سے ذکر کیا ہے اور اس میں اس نے وہ باتیں بھی ذکر کی ہیں جس کو دس براہین کا نام دیا ہے وہ سب کے سب باطل ہیں پس اس نے کہا کہ : ۱۔ پہلی دلیل یہ ہے کہ عدمِ سابق کی طرف جو چیز محتاج ہوتی ہے یا تو وہ فعل کا وجود ہے یا اس کے اندرفاعل کی تاثیر ہے ۔یہ بات تومحال ہے کہ عدمِ سابق کی طرف فعل کا وجود محتاج ہو اس لیے کہ فعل اپنے وجود میں عدم کی طرف محتاج ہو جائے تو عدم اس کے مقارن ہوگا۔ ایسا عدم جو فعل کے ساتھ مقارن اور متصل ہو وہ اس کے وجود کے منافی ہے اور یہ بات محال ہے کہ محتاج علیہ فاعل کی تاثیر بنے اس لیے کہ فاعل کی تاثیر کیلئے ضروری ہے کہ وہ اصل کے ساتھ مقارن اور متصل ہو اور اصل کا پایا جانا اس کے عدم کے منافی ہے۔ اور ایسی شے کا منافی ہے کہ جس کا مقارن ہونا ضروری ہے۔ تو اس کا منافی ہونا بھی واجب ہے اور منافی کبھی بھی شرط نہیں بن سکتا ۔ پس نہ تو فعل اپنے وجود میں موجود اور حاصل ہوا اور نہ فاعل اپنے موثر ہونے میں عدمِ منافی کی طرف محتاج ہوا۔ پس جواب میں کہا جائے گا کہ مفعول یا فاعل کے فعل کا عدم کی طرف محتاج ہونے سے یہ مراد نہیں ہے کہ عدم اس میں موثر ہے تاکہ اس پر تفریع کرتے ہوئے اس بات کو ثابت کیا جائے کہ اس کا اس کے ساتھ مقارنت ضروری ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ عدم کے بعد ہی وجود میں آتا ہے جس طرح کہ انہوں نے کہا ہے کہ عدم منجملہ مبادی کے ہے چاہے اسے مطلقِ فعل یا حرکتِ تغیر یا استکمال کے لیے مبدا قرار دیا جائے پس مقصود تو یہ ہے کہ انہوں نے اس کو اس معنی پر عدم کی طرف محتاج قرار دیا کہ وہ کسی شے کے عدم کے بعد ہی وجود میں آتا ہے ،اس معنی پر نہیں کہ عدم اس کے ساتھ مقارن ہے ۔ یہ بات تو معلوم ہے کہ جب یہ کہا جائے کہ حرکت ہمیشہ دھیرے دھیرے وجود میں آتی ہے مگر آواز کا بھی تویہی حال ہے لہٰذا اس میں سے جو بھی جزء حادث ہوگا یعنی وجود میں آئے گا وہ اپنے ماقبل کے وجود پر موقوف ہوگا اگرچہ اس کے ساتھ مقارن نہ ہو اور یہ بات بھی (مسلم ہے )کہ معدوم شے جب اپنے وجود کے بعد دوبارہ معدوم ہو جائے تو یہ عدمِ حادث بھی تو اس وجودِ سابق کی طرف محتاج ہے حالانکہ اس کے مقارن نہیں یعنی مقارن ہونا ضروری نہیں اور نیز یہ جو بات انہوں نے کہی ہے اس کے ذریعے ان پر ہر حادث میں اس بات کا الزام آئیگا اس لیے کہ ہر شے جو حادث ہوتی ہے وہ عدم کے بعد ہی حادث ہوتی ہے پس اس کا حدوث موقوف ہوا اپنے اس