کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 200
والے ہیں جیسے کہ علامہ ابن رشد حفید اور ان کے علاوہ دیگر ،انہوں نے بھی ممکن کے بارے میں اس بات کا انکار کیا ہے کہ وہ قدیمِ ازلی بنے باوجود یکہ وہ ابن سینا کے ہم خیال ہیں اور انہوں نے یہ بات واضح کر دی کہ انہوں نے ارسطو اور اس کے اتباع کے اس قول میں مخالفت کی ہے اور یہ قول ایسا ہی ہے جیسے کہ انہوں نے کہا اور ارسطو کا کلام اس امر میں بالکل واضح ہے جو اس نے مقالہ ’’لام ‘‘میں ذکر کیا ہے جو کہ علم مابعد الطبیعہ پر کلام کے آخر میں مذکور ہے۔
ارسطو اور اس کے قدیم اصحاب مع باقی عقلاء کے یہ کہتے ہیں کہ وہ ممکن جس کا وجود اور عدم دونوں ممکن ہوں وہ صرف اور صرف حادث ہی بن سکتا ہے یعنی کہ وہ وجود میں آیا بعد اس کے کہ معدوم تھا اور کوئی بھی مفعول بہر حال حادث ہی ہوتا ہے اور ان لوگوں نے جب افلاک کے قدم کا قول اختیار کیا تو انہوں نے یہ نہیں کہا کہ وہ ممکن ہے یا مفعول ہے یا وہ مخلوق ہے بلکہ ان کا خیال یہ ہے کہ وہ علت ِ اولیٰ کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے متحرک ہے اور یہ (افلاک)اس علتِ اولیٰ کی طرف محتاج ہیں جس کو ابن سینا اور اسکے امثال ’’واجب الوجود ‘‘کہتے ہیں اس اعتبار سے کہ ان کی حرکت میں اس (واجب الوجود )کے ساتھ مشابہت ضروری ہے گویا کہ ارسطو اور اس کے اتباع کے نزدیک واجب الوجود کی ذات افلاک کے لیے علتِ غائیہ کی جنس میں سے ہے یہ نہیں کہ وہ اس کے لیے علتِ فاعلیہ ہے اور یہ قول اگرچہ کفر اور گمراہی اور جمہور کی مخالفت کے اعتبار سے سب سے زیادہ شنیع قول ہے اور اسی وجہ سے متاخرینِ فلاسفہ نے اس سے پہلو تہی کی ہے اور انہوں نے دعویٰ کیا مُوجِب اور مُوجَب کا جیسے کہ ابن سینا اور اس کے امثال کا خیال ہے اور فلاسفہ کے ان بڑے بڑے اکابر کا جو ارسطو سے پہلے گذرے ہیں وہ قدمِ عالم کے قائل نہیں تھے بلکہ وہ اس بات کا اقرار کرنے والے تھے کہ افلاک حادث ہیں ،وجود میں آئے ہیں بعد ا س کے کہ نہیں تھے۔
ساتھ ایک ایسی نزاع کے کہ جو ان کے درمیان مادے کے بارے میں منتشر اور معروف ہے پس مقصود تو یہاں یہ ہے کہ یہ لوگ باوجود اس گمراہی کے جس میں یہ پڑے ہوئے ہیں ،اپنے حق میں اس بات پر راضی نہیں کہ اس ممکن کو جس کا وجود اور عدم دونوں ممکن ہیں اس کو قدیم اور ازلی قرار دیں بلکہ انہوں نے کہا کہ وہ صرف اور صرف حادث ہی بن سکتا ہے اور یہ اپنے حق میں اس بات پر بھی راضی نہیں کہ یہ کہیں کہ وہ مفعول جو مصنوع ہے اور اس کو از سرِ نو(بغیر کسی سابق نمونے کے ) پیدا کیا گیاہے وہ قدیمِ ازلی بنے اور نہ اس بات پر راضی ہیں کہ وہ مراد جس کا باری تعالیٰ نے ارادہ کیا یعنی اس کے فعل کا ،وہ قدیم اور ازلی بنے اس لیے کہ ان اقوال کا فسادبالکل عقلِ اولی میں واضح اور ظاہر ہے اور بے شک جو لوگ متاخرینِ فلاسفہ میں اس قول کے قائل ہیں تو اس کی طرف ان کو اس امر نے مجبور کیا کہ وہ اقوال ِ متناقضہ کے قائل ہوئے (جس سے فرار کے لیے وہ اس عظیم فساد کے قائل