کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 20
کی مذمت کر کے ان کے محاسن کو عیوب ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کتاب میں حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کی ہجو و قدح کا کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا گیا، اس کی حدیہ ہے کہ اگر اعداء دین مثلاً مجوس، رومی، ترک اور دیالمہ میدان حرب و قتال میں جب وہ صحابہ کے خلاف برسر پیکار تھے اگر ان کے اخلاق و اعمال کی تصویر کشی کرنا چاہتے تو اس شرمناک طریق کار سے اجتناب کرتے۔
جب مسلمان ہسپانیہ میں برسر اقتدار تھے تو وہاں کے پادری[بوقت مناظرہ] امام ابن حزم رحمہ اللہ کے خلاف شیعہ کے اس قول سے احتجاج کیا کرتے تھے کہ قرآن محرف ہوچکا ہے ان کی تردید میں امام موصوف رحمہ اللہ مجبوراً فرماتے:
((وَاَمَّا قَوْلُہُمْ فِیْ دَعْوَی الرَّوَافِضِ بِتَبْدِیْلِ الْقُرْآنِ فَاِنَّ الرَّوَافِضَ لَیْسُوْا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ)) (کتاب الفصل :۲؍ ۷۸)
’’ عیسائیوں کا رافضی دعوی کا متعلق یہ کہنا کہ قرآن تبدیل ہوگیاہے ‘ تو بیشک رافضی مسلمان نہیں ہیں ۔‘‘
غالباً پادری کافی کلینی سے بیان کردہ جھوٹی روایات سے احتجاج کیا کرتے تھے، مثلاً کافی کلینی کی مذکورہ ذیل روایات:
کلینی کی کتاب’’الکافی‘‘ کی موضوع روایات:
۱۔ جابر جعفی سے روایت ہے؛اس نے کہا میں نے ابو جعفر صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا وہ فرماتے تھے کہ جھوٹے آدمی کے سوا کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ قرآن کریم اسی طرح جمع کیا گیا ہے جیسے کہ نازل ہوا تھا، حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور بعد میں آنے والے ائمہ کے سوا کسی نے قرآن کونہ یاد کیا اور نہ جمع کیا۔‘‘ (’’الکافی ‘‘ از کلینی طبع: ۱۲۷۸، ص:۵۴)
۲۔ ابوبصیر روایت کرتے ہیں کہ میں ابو عبداﷲ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے فرمایا، ہمارے یہاں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا قرآن موجود ہے۔ میں نے عرض کیا مصحف فاطمہ سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: وہ تمہارے قرآن سے تین گنا زائد ہے، بخدا اس میں تمہارے قرآن کا ایک لفظ بھی موجود نہیں ۔‘‘ (’’الکافی ‘‘ از کلینی،ص: ۵۷)
کلینی کی کتاب ’’الکافی‘‘ شیعہ کے یہاں اسی طرح مستند سمجھی جاتی ہے، جس طرح مسلمانوں کے نزدیک کتب حدیث میں صحیح بخاری، حالانکہ وہ ایسی کفریات سے لبریز ہے۔ ’’ابن المطہر‘‘جس کی تردید کے لیے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے یہ کتاب تحریر فرمائی ؛شیعہ کی کتاب روضات الجنات میں اسے طرح طرح کے القاب سے نوازا گیا ہے، مثلاً اسے فخر علماء، مرکز دائرہ اسلام، آیۃ اﷲ فی العالمین، استاذ الخلائق ، جمال الملۃ والدین وغیرہ القاب سے ملقب کیا گیا ہے۔
میرا خیال ہے کہ ابن المطہر کی ’’ منہاج الکرامہ ‘‘ اور اس کے معاصر امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی گراں قدر