کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 199
ہے اس بات کو جانتے ہوئے کہ وہ اپنے اختیار کے ساتھ فعل صادر کرنے والا ہے یعنی فاعلِ مختار ہے پس ان تین باتوں کو ماننے کی تقدیر پر یہ ممتنع ہے کہ عالم میں کوئی شے ازلی بنے وہ تین یہ ہیں :
(۱)حوادث کا ممکن ہونا (۲)ان کا دوام
(۳)بغیر کسی سبب حادث کے حوادث کے صدور کا امتناع۔
اگر کہا جائے کہ عالم کا فاعل تو قادرِ مختار ہے جیسے کہ مسلمانوں کا اور دیگراہلِ ملل کا مذہب ہے اور اسی طرح ان فلاسفہ کے اکابر کا جو ارسطو سے پہلے گزرے ہیں اس لیے کہ یہ بات ضروری ہے کہ فاعل مبدع(از سر نو پیدا کرنے والا) کے حق میں یہ ضروری ہے کہ وہ فعل کرنے کے وقت اولیٰ کا ارادہ کرنے والا ہو ،جس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ اِنَّماأَمْرُہٗ اِذا أَرادَ شَیْئاًأَن یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ ﴾[النحل :۴۰]
’’بیشک اللہ تعالیٰ کا حکم ؛ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتے ہیں تو اس سے کہتے ہیں : ہو جا؛ وہ ہوجاتی ہے۔‘‘
ایسا قدیم ارادہ جو (بیک وقت )تمام حوادث کو شامل ہو اس کا صرف وجود کا فی نہیں بغیر اس حادثِ معین کے ارادے کے تجدد کے ،اس لیے کہ اس تقدیر پر تو بغیر کسی سببِ حادث کے حوادث کے حدوث کا امکان لازم آئے گا اور ہم تو اس دوسری تقدیر پرکلام کرتے ہیں (یعنی کہ بغیر کسی سبب حادث کے حوادث کا صدور ممکن نہیں بلکہ ممتنع ہے )۔پس یہ بات ممتنع ہوئی کہ ازل میں ایک ایسا ارادہ پایا جائے جس کے ساتھ اس کی مراد مقارن اور متصل ہو خواہ وہ ان تمام حوادث کو عام اور شامل ہو جو اس سے صادر ہوں یا بعض خاص مفعولات کے ساتھ خاص ہو اس لیے کہ اس ذات کی مراد تو رب کا مفعول ہے اور یہی ارادہ تو فعل کا ارادہ ہے اور یہ بات بداہۃً معلوم ہے کہ وہ شے جس کے کرنے کا فاعل ارادہ رکھتا ہے وہ قدیم ازلی نہیں بن سکتا بلکہ وہ تو لامحالۃحادث ہی بن سکتا ہے بعد اس کے کہ وہ موجود نہیں تھا ۔
ابن سینا اورجمہورِ فلاسفہ اور ارسطو کا اختلاف :
اکثر عقلاء کے نزدیک بدیہی طور پر یہ بات معلوم اور متفق علیہ ہے ،خواہ وہ مسلمان اہل نظر ہیں یا غیر مسلم اور متقدمین ومتاخرین اورجمہورِ فلاسفہ سب کے نزدیک حتی کہ ارسطو اور اس کے پیروکاروں کے نزدیک اور اس میں تو کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا سوائے فلاسفہ کے ایک چھوٹے سے گروہ کے جن میں سے بعض نے اس امر کو جائز اور ممکن کہا ہے کہ فاعل کوئی خاص مفعول ممکن ہو اور اس کے ساتھ وہ قدیم اور ازلی بھی ہو جیسے کہ ابن سینا اور اس کے امثال اور بعضوں نے یہ بات جائز قرار دی ہے کہ وہ مراد بھی بنا رہے جمہورِ عقلا تو یہ کہتے ہیں کہ ان دونوں قولین کا فساد بدیہی عقل کے ذریعے معلوم ہے حتی کے وہ لوگ جو ارسطو اور اس کے متبعین کا دفاع کرنے