کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 198
نیز اگر یہ کہا جائے کہ یہ تو جائز اور ممکن ہے اور ہم تو حوادث کے دوام کے جواز اور امکان کی تقدیر پر بات کرتے ہیں لہٰذا ممکن ہے کہ وہ یکے بعد دیگرے حوادث پیدا کرنے کا ارادہ کرے اور یہ سلسلہ کسی ایسے حادث پر منتہی نہ ہو جس کو اول کہا جائے (یعنی سلسلہ حوادث ازل سے ہو )لیکن یہ امراس کا تقاضا نہیں کرتا کہ وہ ازل میں کسی حادثِ معین کا ارادہ کرے اس لیے کہ ازل میں کسی حادثِ معین کا وجود بدیہی طور پر محال ہے اور اس پرعقلا ء کا اتفاق ہے ،کہ حادثِ معین قدیم نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ تو جمع بین النقیضین ہے اور نزاع تو نوعِ حوادث کے دوام میں ہے نہ کہ کسی حادثِ معین کے قدم میں اور فی الجملہ اگر کہا جائے کہ دوامِ حوادث ممکن ہے اور یہ کہ اس کا نوع قدیم ہے تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کا نوع حادث ہے بعد اس کے کہ وہ معدوم تھا اس لیے کہ جس شے کا قدم ممکن ہو تو اس کا عدم ممتنع ہوتاہے اور یہاں پر تو ہمارا مراد جواز خارجی یعنی امکانِ خارجی ہے نہ کہ محض امکانِ ذہنی جو کہ علم بالامتناع کے عدم سے عبارت ہے اس لیے کہ یہ تو کسی شے کے قدم پر دلالت نہیں کرتا بخلاف امراول کے یعنی اس کے قدم کے امکان پر علم ،اس لیے کہ جب اس کا قدم ممکن ہوا تو دو وجہوں میں سے کوئی ایک ضرور پائی جائے گی یا تو واجب بنفسہ ہوگایا وہ کسی واجب الوجود سے صادر (پیدا)ہے اور دونوں تقدیرین پر جو بھی شے واجب بنفسہ ہو یا واجب بنفسہ کے لیے لازم ہو تو اس کا قدم لازم اور اس کا عدم ممتنع ہوا اس لیے کہ واجب بنفسہ کا قدم بھی واجب ہے اور اس کا عدم ممتنع ہے اسی طرح ملزوم کا وجود بدونِ لازم کے ممتنع ہے لہٰذااس کے لوازم کا قدم بھی واجب اور ضروری ہوا اور اس کا عدم بھی ممتنع ہوا۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ حوادث کا دوام ممکن ہے لہٰذا اس کے نوع کا قدم بھی ممکن ہوا اور اس کا قدم جب ممکن ہوا تو اس کے نوع کا عدم (فنا ہونا )بھی ممتنع ہو جائے گا بشرطیکہ اس کے لیے کوئی موجب ازلی پایا جاتا ہو اور ایسی صورت میں اس کے نوع کا قدم واجب اور ضروری ہوا اور اس کا عدم ممتنع ہوا لہٰذا یہ واجب نہیں ہے کہ بعض عالم ازلی ہو ۔ پھر اس کے بعد حال یہ ہے کہ اس میں حوادث وجو د میں آتے ہیں باوجود یکہ اس کے دوام کے امکان کا قول اختیار کیا گیا ہے بلکہ یہ بات تو ممتنع ہے جیسے کہ ماقبل میں گزری اور یہ تمام مقدمات اس شخص کے لیے بالکل واضح ہیں جو اس میں غور کرے اور اس کو اچھی طرح سمجھے پس یہ بات واضح ہوئی کہ اگر عالم میں سے کوئی خاص شے ازلی اور قدیم ہوتا تو یہ لازم آتا کہ اس کا فاعل بھی موجب بالذات ہو اور اگر عالم کا فاعل موجب بالذات ہے تو عالم میں سے کوئی شے بھی حوادث میں سے نہیں رہے گا حالانکہ حوادث کا وجود توایک مشاہد امر ہے یعنی ا س میں نظر آرہے ہیں پس یہ بات ممتنع ہوئی کہ عالم کا فاعل موجب بالذات ہو پس ممتنع ہوا کہ عالم قدیم بنے جس طرح کہ فرقہ دہریہ نے کہا ہے پس یہ بات بھی ممتنع ہوئی کہ عالم کا فاعل موجب بذاتہ ہو اور عالم کاقدم ممتنع ہواجس طرح کہ انہوں نے (دہریہ )نے کہا بلکہ یہ بات بھی ممتنع ہوئی کہ وہ معین چیزجو ازل سے فاعل کا مفعول