کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 197
قَالَتْ رُسُلُہُمْ أَفِی اللَّہِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ یَدْعُوکُمْ لِیَغْفِرَ لَکُمْ مِنْ ذُنُوبِکُمْ ﴾( ابراہیم ۹ ،۱۰) ’’وہ کہنے لگے:بے شک ہم تو اس چیز کے بارے میں جس کی طرف تم ہمیں دعوت دیتے ہو، ایک بے چین رکھنے والے شک میں مبتلا ہیں ۔ ان کے رسولوں نے کہا کیا اللہ کے بارے میں کوئی شک ہے، جو آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والا ہے؟ تمھیں اس لیے بلاتا ہے کہ تمھارے لیے تمھارے کچھ گناہ بخش دے....۔‘‘ اور اس کے امثال دیگر آیات بھی اور یہ بات اپنی جگہ پر بالتفصیل بیان ہو چکی ہے لیکن ہم نے یہاں اس پرمناسبت کی وجہ سے تنبیہ کر دی اور یہاں تو مقصود یہ ہے کہ جب ہم نے حوادث کا بغیر کسی سببِ حادث کے حدوث کو ممکن قرار دیا تو عالم کا قدم ممتنع ہوا جیسے کہ ہم اس امتناع کو ثابت کریں گے پس اس کے قدم کا امتناع دونوں نقیضین کی تقدیر پر لازم آیااور یہی ہمارا مطلوب ہے ۔ بلا ابتداء حوادث کے امکان کا عقیدہ : ایسے حوادث کے امکان کا قول جن کیلئے کوئی اول (مبدا)ثابت ہو ان لوگوں کے قول کو باطل کردیتا ہے جو عالم کے قدم کے قائل ہیں ۔ اس عنوان کے ذیل میں ہم جس بات پر کلام کرنا چاہتے ہیں وہ ایسے حوادث کے دوام اور تسلسل کا امکان ہے جن کے لیے کوئی اول نہ ہو یعنی وہ ازل سے ہوں اور اس قول پر بدیہی طور پر ً کسی ایسے حادث کا وجود ممتنع ہو جاتا ہے جو کسی سبب ِ حادث کے بغیر نہ آیا ہو اور ہمارے علم کے مطابق عقلا ء کااس بات پر اتفاق ہے اس لیے کہ یہ امکان یعنی کہ ایسے حوادث موجود ہیں جن کا کوئی اول نہیں اوروہ ازل سے ہیں ،اس بات کو مستلز م ہے کہ ممکن کے دو طرفین میں کسی ایک جانب کو بغیر کسی مرجح تام کے ترجیح دی جائے حالانکہ مرجح تام بھی ایک ممکن ہی ہے اور اسی طرح یہ اس کو بھی مستلزم ہے کہ بغیر کسی سببِ حادث کے حوادث کے وجود کو ماناجائے باوجود یکہ کسی سببِ حادث کا صفتِ دوام کے ساتھ حدوث اور وجود ممکن ہو اور عقلا ء میں سے ہمارے علم کے مطابق کوئی بھی اس کا قائل نہیں اور یہ بات بالکل باطل ہے اس لیے کہ یہ دو متماثلین میں کسی ایک کا دوسرے پر بغیر مرجح کے ترجیح دینے کاتقاضا کرتا ہے اور یہ اس لیے کہ جب تمام اوقات کی طرف کسی حادثِ معین کی نسبت ایک ہی طرح کی ہے اور فاعل کی قدرت اور ارادہ کی طرف تمام احوال میں اس کی نسبت ایک ہی طرح ہے اور فاعل بھی ازل سے ایک ہی حالت پر ہے تو یہ بات بدیہی طور پر معلوم ہوئی کہ کسی ایک وقت کو صفت ِ احداث کے ساتھ خاص کرنا دوسرے وقت کو چھوڑ کر دونوں متماثلین میں سے ایک کو دوسرے پر بغیر مرجح کے ترجیح دینا ہے ۔