کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 196
اس کی وجہ سے یہ لوگ اس بات سے بچتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو (صفات کی )نفی اور اثبات کے ساتھ موصوف کیا جائے پس (تناقض سے بچنے کیلئے )ان میں سے بعض تو وہ ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ یہ نہیں کہا جائے گا کہ یہ موجود اور معدوم ہے اور نہ یہ کہا جائے گا کہ زندہ ہے اور مردہ ہے اور بسا اوقات یہ کہتے ہیں کہ یہ نہیں کہا جائے گا کہ وہ ذات موجود ہے اور نہ یہ کہ موجود نہیں نہ یہ کہ وہ حی (زندہ )اور نہ یہ کہ وہ حی نہیں پس یہ ارتفاع نقیضین کے بھی مرتکب ہیں یا وہ احد النقیضین کے اثبات سے بچتے ہیں اور رفع نقیضین بھی اسی طرح ممتنع ہے جس طرح جمع نقیضین ممتنع ہے اور احد النقیضین کے اثبات سے امتناع نفی اور اثبات سے امساک ہے اور حق اور باطل سے امساک ہے اور حق کو پہچاننے اور حق بات کرنے سے امتناع ہے اور انکے باطل مذہب کا پورا دارومدار اس پر ہے کہ اللہ تعالیٰ کو نہ پہچانا جا سکتاہے نہ اس کا ذکر کیا جا سکتا ہے نہ اس کو یاد کیا جا سکتا ہے نہ ا سکی بزرگی بیان کی جا سکتی ہے اور نہ عبادت اور یہ سفسطہ کی اقسام میں سے ہے اس لئے کہ سفسطہ میں سے ایک یہ بھی ہے کہ حق کی نفی کی جائے اور ان میں سے وہ باتیں بھی ہیں جو علم کی بھی نفی ہے اور اس میں سے بعض باتیں بھی ہیں جو اس پر علم کی بھی نفی ہے اور اس میں سے بعض وہ باتیں بھی ہیں جو تجاول ہیں اور اثبات سے امتناع ہے اور نفی سے بھی امتناع ہے اور ان قول کے قائلین کو لا ادریہ کہا جاتا ہے بوجہ اس کے کہ وہ ہر بات کے جواب میں ’’لاندری‘‘ کہتے ہیں ۔ جس طرح کہ فرعون نے کہا تھا کہ وَما رَبُّ الْعالَمِیْنَ (سورۃ شعراء :۲۳) اپنے آپ کو اس بات سے جاہل بناتے ہوئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو نہیں پہچانتا اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی منکر (غیر معروف)ہے کہ اس کی تعریف ممکن نہیں تو موسیٰ علیہ السلام نے ایسے الفاظ سے اس کو جواب دیاکہ جس نے اس کے لیے اس بات کو واضح کر دیا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات تو اتنے معروف اور مشہور ہیں کہ اسے منکر سمجھنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں اور اللہ تعالیٰ کی ذات کا وجود اتنامسلم ہے کہ اس سے انکار کا کوئی جواز ہی نہیں پس جواب میں انہوں نے یہ کہا کہ: ﴿قَالَ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَیْنَہُمَا إِنْ کُنْتُمْ مُوقِنِینَ قَالَ لِمَنْ حَوْلَہُ أَلَا تَسْتَمِعُونَ 25) قَالَ رَبُّکُمْ وَرَبُّ آَبَائِکُمُ الْأَوَّلِینَ ﴾( شعراء: ۲۴ تا۲۶) ’’ کہا جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے اور اس کا بھی جو ان دونوں کے درمیان ہے، اگر تم یقین کرنے والے ہو۔ اس نے ان لوگوں سے کہا جو اس کے ارد گر د تھے، کیا تم سنتے نہیں ؟کہا جو تمھارا رب اور تمھارے پہلے باپ دادا کا رب ہے۔‘‘ اسی طرح انبیاء علیہم السلام نے اپنی قوم کے ان لوگوں کے جواب میں کہا ؛جنہوں نے یہ کہا تھا کہ: ﴿ وَقَالُوا إِنَّا کَفَرْنَا بِمَا أُرْسِلْتُمْ بِہِ وَإِنَّا لَفِی شَکٍّ مِمَّاتَدْعُونَنَا إِلَیْہِ مُرِیبٍo