کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 194
جس چیز کے احداث کا وہ ارادہ کرے اگرچہ اس میں یہ بات ضروری ہے اور اس شے میں بھی جس کے بارے میں وہ یہ ارادہ کرے کہ اس کے لیے ایسے حوادث پیدا کرے جو یکے بعد دیگرے وجود میں آنے والے ہیں جیسے کہ انسان کو وجود دیتے ہیں اور اس کے لیے ایسے احوال پیدا کرتے ہیں جو شیئا ًفشیئا ًوجود میں آتے ہیں اور افلاک کو وجود یتے ہیں اور ان کے حوادث کو بھی یکے بعد دیگرے پیدا کرتے ہیں لیکن جب یہ بات فرض کر لی جائے کہ ملزوم اس کی پیدا کردہ نہیں ہے تو پھر اس کا مفعول ہونا بھی معقول نہیں اور یہ بات بھی معقول نہیں کہ وہ اس ذاتِ قدیمہ کے لیے معلول بنے اور اس کے قدم کے ساتھ قدیم ہو اس لیے کہ اس ذاتِ قدیمہ کا معلول تو ایسی صفات اور مقادیر ہیں جو اس کی ذات کے ساتھ مختص ہیں اور ایسی علت جو احوالِ اختیاریہ سے مجرد ہو تو وہ اپنے لوازم کو مستلزم ہوتی ہے اور اس کے لوازم میں سے وہ اشیاء بنتے ہیں جو اس کے ساتھ اس طرح مناسبت رکھتے ہوں جو معلول کا اپنے علت کے ساتھ ہوتا ہے اور معلول کیلئے تو ایسے مقادیر ،اعداد اور صفاتِ مختلفہ ثابت ہوتی ہیں جو اس کیساتھ خاص ہیں اور ان کی طرح امور علت میں پایا جاناممتنع ہوتاہے پس مناسبت ممتنع ہوئی اور جب مناسبت ممتنع ہوئی تو ا سکا علت بننابھی ممتنع ہو گیا ۔
نیزکہ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ وہ اپنے معلولِ ازلی کے لیے موجب ازلی ہیں تو اس (معلول )کاایجاب (احداث دو حال سے خالی نہیں )یا تو ایسی ذات کے ذریعے ہوگا جو احوال متعاقبہ (یکے بعد دیگرے وجود میں آنے والے )سے مجرد ہوگا یا ان احوال سمیت ،اول صورت تو ممتنع ہے اس لیے کہ کسی ذات کا اپنے لوازم سے مجرد ہونا ممتنع ہے اور دوسری بات بھی ممتنع ہے اس لیے کہ وہ ذات جو اپنے صفات اور احوال کو مستلزم ہو وہ اپنی صفات اور احوال کے ذریعے فاعل بنتی ہیں اور احوالِ متعاقبہ کے بارے میں یہ بات ممتنع ہے کہ اس کے لیے کوئی ایسا معلولِ معین ہو جو قدیم اور ازلی ہو اور یہ بھی ممتنع ہے کہ وہ معلولِ ازلی میں شرط ہو اس لیے کہ معلولِ ازلی کے بارے میں یہ بات ضروری ہے کہ وہ کسی علتِ ازلیہ کا مجموعہ ہو اور احوالِ متعاقبہ مجموعہ نہیں ہوتے اور نہ ان میں سے کوئی شے ازلی بنتا ہے ازلی تو ایک ایسا نوع ہے جو قدیم ہے اور وہ شیئا ًفشیئا ًوجود یتا ہے اور یہ بات ممتنع ہے کہ وہ ازل میں شرط ہو اور یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کہ اگر کہا جائے کہ دوام کے ساتھ حرکت کرنے والا فلک ایک ایسی ذات کے لیے موجب ہے جو ازلی ہے اور متحرک ہے یا وہ متحرک نہیں پس یہ بات ان کے نزدیک ممتنع ہے اور ان کے علاوہ دیگر کے نزدیک بھی اس لیے کہ جس شے کا فعل حرکت کے ساتھ مشروط ہو اس کے بارے میں یہ ممتنع ہے کہ اس کا کوئی مفعولِ معین (کوئی خاص مفعول )قدیم بنے ۔
اگر یہ بات فرض کر لی جائے کہ متحرک ازلی ایک ایسے متحرک کے لیے موجب ہے جو ازلی ہے تو وہ اس کیلئے موجب بنتا جو اس کے مناسب ہو اور وہ متحرکات جو اپنی مقدار اور صفات اور حرکات میں مختلف ہیں تو ان