کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 193
حوادث کو مستلزم ہیں اس لیے کہ نفوس اور افلاک کا حوادث سے خالی ہوناان کے نزدیک بھی ممکن نہیں ۔
اگر ان کو حوادث سے خالی مانا جائے تو پھر یہ نفوس نہ رہیں گے بلکہ عقول بن جائیں گے اور ایسی صورت میں جب معلول حوادث سے خالی نہیں ہوتا تو یہ بات لازم آئی کہ اس کی علت بھی حوادث سے خالی نہیں ورنہ تو لازم آئے گا کہ معلول میں حوادث کا حدوث بغیر کسی علت کے ہے اور یہ ممتنع ہے کیونکہ حوادث کے لیے کسی ایسے سبب کا پایا جانا ضروری ہے جو اس کے ساتھ حادث ہو پس اگر نفوس کی علت اور افلاک کی علت میں ایسی کوئی صفت نہ ہو جو اس امرکا تقاضا کرے تو پھر یہ بات باطل ہوئی کہ اس کے لیے کوئی علت بھی ہو کیونکہ ایک ہی حال میں کسی علتِ بسیطہ سے حوادثِ مختلفہ کا صدور ممتنع ہے ؛اور یہ ایسی بات ہے جس سے ان کے ائمہ نے استدلال کیا ہے۔ اور ان کے علاوہ دیگر اُن لوگوں نے بھی جو اس بات کے قائل ہیں کہ رب تعالیٰ کی ذات کے ساتھ امورِ اختیاریہ قائم ہیں ۔ اور ن کا کہنا ہے کہ :یہ اس لئے ہے کہ مفعولات میں ایساتنوع اور حدوث پایا جاتا ہے جو اس بات کا سبب ہے کہ وہ کسی فاعل کے سبب ہوں ورنہ تو بغیر کسی محدث اور موجد کے حوادث کا حدوث لازم آئے گا اور جب اجزائِ عالم میں ہر ہر جز حوادثِ کے لیے ملزوم ہے اور وہ مصنوع ہے تو اس کا ااحداث بدوں حوادث کے ممتنع ہوا اور حوادث کا دھیرے دھیرے ابداع اور احداث باوجود یکہ اس کا محل ِ معلول قدیم ہو تو یہ ایک امرممتنع ہے کیونکہ وہ قدیم ذات جو موجب لذاتہ ہو اس کو وجود نہیں دیتا مگر حوادث کے ساتھ ہی وجود دیتا ہے پس وہ ان کے لیے بالکل موجب (پیدا کرنے والا)نہیں بن سکتا مگرایک ایسے فعل کے ساتھ جواس کی ذات کے ساتھ قائم ہو اور حادث ہو اور جب (یہ ثابت ہوا کہ )وہ فعل نہیں کرتا مگر کسی فعلِ حادث ہی کے ذریعے تو پھر یہ بات ممتنع ہوئی کہ اس کا کوئی مفعول قدیم بنے کیونکہ مفعول کا قدم تو بدیہی طور پر فعل کے قدم کا تقاضا کرتا ہے ۔
جب یہ کہا جائے کہ مفعول کا فعل (احداث)تو قدیم ہے اور حوادث کا فعل تو شیئا ًفشیئا ًحادث ہوتا ہے تو یہ بات لازم آئی کہ فاعل کی ذات کے ساتھ دو قسم کے فعل قائم ہوں پہلا ذاتِ قدیمہ کا فعل اور وہ تو اس کے قدم کے ساتھ قدیم ہوا اور اور اسکے دوام کے ساتھ دائم ہے اور دوسرا اس کے حوادث کے افعال اور وہ بھی شیئا ًفشیئا ً حادث ہیں پس ذاتِ فاعل ملزوم کے لیے فاعل بن گئی اور کسی دوسرے فعلِ کے ذریعے لازم کے لیے فاعل بن گئی یا اس کا ملزوم کو وجود دینا (فعل )لازم کو وجود دینے کے کا سبب ہے کیوں کہ ملزوم کا لازم سے انتفاء نہیں ہو سکتا ہے اور اس کا ملزوم کا ارادہ کرنا اس کے لازم کے ارادے کومستلزم ہے اس لیے کہ ملزوم کا ارادہ کرنے والی ایسی ذات جس کو اس کا علم ہو کہ یہ اس کا لازم ہے اگر وہ لازم کو چھوڑ کر صرف ملزو م کا ارادہ کرے (یعنی لازم کے احداث کا ارادہ نہ کرے )تو پھر یہ صورتِ حال دو حال سے خالی نہیں یا تو یہ کہ وہ ملزوم کے فعل (احداث )کا بالکل ارادہ نہیں رکھتایا پھر وہ ملزوم (کے وجود )پر عالم نہیں ہوگا اور اللہ تعالیٰ تو ملزوم کا ارادہ کرنے والے ہیں اور ملزوم پر عالم بھی ہیں پس یہ بات ممتنع ہوئی کہ وہ ملزوم کا ارادہ کرے بغیر لازم کے کرے ۔