کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 192
اس پر متقدم نہیں تھا اور یہ بھی کہ رب تعالیٰ جب کسی بھی شے کو پیدا نہیں کیا مگر اپنی قدرت اور مشیت کے ذریعے پس جس کو اس نے چاہا وہ وجود میں آیا اور جس کو نہیں چاہا تو وہ وجو دمیں نہیں آیا چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ إِنَّمَا أَمْرُہُ إِذَا أَرَادَ شَیْئًا أَنْ یَقُولَ لَہُ کُنْ فَیَکُونُ ﴾( یاسین: ۲۳)
’’بیشک اس کا حکم ؛ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کریں تو اس سے کہتے ہیں : ہو جا؛ تو وہ ہوجاتی ہے۔‘‘
پس یہ بات بھی ضروری ہے کہ وہ فعل کرنے سے پہلے فعل کا ارادہ کرے اور یہ بات بھی ضروری ہے کہ فعل کا وجود مفعول سے قبل ہو اگرچہ ارادہ اور فعل دونوں مفعول کے وجود کے وقت موجود ہوتے ہیں جس طرح اہلِ سنت اس کے قائل ہیں کہ یقیناً قدرت کے لیے ضروری ہے کہ وہ فعل کے ساتھ متصل ہو لیکن (اس کے برعکس )جب یہ کہا جائے کہ مفعول تو فاعل کے ساتھ ازل سے لازم ہے تو پھر اس صفت کے درمیان کہ جو ذات کے ساتھ قائم ہے اور مفعولِ مخلوق کے درمیان تو کوئی فرق نہ رہا۔پس اس کی حیات اور اس کی مخلوق کے اور خالق و مخلوق کے درمیان کوئی فرق نہ رہا (حالانکہ اس کا پایا جانا بدیہی عقل کے تقاضے سے ضروری ہے )اور عقلا ء تو اس بات کو جانتے ہیں کہ فاعل جس چیز کو وجود دیتا ہے خاص طور پر وہ کام جس کو وہ اپنے اختیار سے وجود دیتا ہے اور وہ سے جو اس کی ذات کیلئے بطورِ لوازمِ ذات کے ہے اور اس کی صفت ہے ،اِن کے درمیان فرق پایا جاتاہے اور اس کو بھی وہ جانتے ہیں کہ انسان کا رنگ اور اس کا طول و عرض یہ اس کی مراد نہیں بن سکتا (یعنی وہ اس کا ارادہ نہیں کرسکتا کیونکہ وہ اس کے اختیار سے باہر ہے )اور نہ مقدور و مفعول ہے اس لیے کہ یہ تو اس کے لوازمات ذات میں سے ہے اور یہ قدرت اور اس کی مشیئت کے تحت داخل نہیں اور رہے اس کے وہ افعال جو اس کی قدرت اور مشیئت کے تحت داخل ہیں تو وہ تو اس کے افعال اور اس کے مقدور ومراد ہیں پس جب یہ بات فرض کی جائے کہ یہ تو اس کی ذات کے ساتھ لازم ہیں جیسے کہ رنگ اور مقدار تو پھر یہ بات غیر معقول ہوئی بلکہ یہ تو ایک ایسی بات ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس کے افعال نہیں اورنہ اس کے مفعولات ہیں بلکہ یہ اس کی صفات ہیں ۔
نیز جب عالم نوعِ حوادث سے خالی نہیں جیسا کہ تم نے تسلیم کر لیا اور جیسا کہ اس پر دلیل بھی قائم ہو جائے گی بلکہ جمہورِ عقلاء کے اتفاق سے یہی بات مسلم ہے تو عالم کا فعل (ایجاد)بغیر حوادث کے ممکن نہ رہا کیونکہ ملزوم کا وجود بدونِ لازم کے ممتنع ہے اور یہ بات بھی ممکن نہ رہی کہ حوادث کا وہ ملزوم قدیم ذات ہو جو خود مصنوع اور مفعول ہے اور اجزائِ عالم میں سے ہر ہر جز کے بارے میں یہ بات ممتنع ہے کہ وہ حوادث سے خالی ہو اور یہ فلاسفہ اس بات کادعویٰ کرتے ہیں کہ عقول حوادث سے خالی ہیں تو انتہائی درجے کا باطل کلام ہے اگر عقول کے لیے خارج میں کوئی وجود ہے تو وہ کیسا ہے اور خارج میں تو اس کی کوئی حقیقت نہیں پائی جاتی اور یہ اس لیے کہ انکے نزدیک عقول کا جو معلول ہے وہ نفوسِ فلکیہ ہیں یا افلا ک ہیں یا اس کے علاوہ عالم میں سے کوئی اور شے ہے تو یہ