کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 191
مشروط ہے پس پہلی حرکت دوسرے کیلئے شرط نہ کہ اس کے لیے فاعل اور شرط میں یہ بات جائز ہوتی ہے کہ وہ مشروط کے ساتھ مقارن ہو اور جب فرض کر لیا گیا کہ ان میں سے کوئی ایک دوسرے کے لیے فاعل ہے تو یہ بات مسلَّم نہیں کہ وہ اس کے ساتھ زمان کے اعتبار سے مقارن ہے بلکہ یہ بات معقول ہے کہ انسان اس چیز کو جو اس کے قریب ہے ،پہلے حرکت دے پھر اس چیز کو حرکت دے جو اس سے دورہے پس اس کا اپنے چمڑے کے ایک بال کو حرکت دینا مقدم ہے اس کے اپنے باطن ثوب (کپڑوں کا اندرون )کو حرکت دینے پر اور اس کے اپنے باطن ثوب کو حرکت دینا مقدم ہے اس کے ظاہر ثوب یعنی کپڑوں کے باہر والے حصے کو حرکت دینے پر اور اس کا اپنے قدم کو حرکت دینا اپنے نعل اور جوتے کو حرکت دینے پرمقدم ہے اور اس کا اپنے ہاتھ کو حرکت دینا اپنے آستین کو حرکت دینے پرمقدم ہے ۔
مقارنت سے دو باتیں مراد ہوتی ہیں ایک اتصال جیسے کہ اجزائے زمان کا اتصال اور اس حرکت کے اجزاء کا اتصال جو شیئا ًفشیئا ًحادث (پیدا)ہوتا ہے پس ان دونوں میں سے ہرایک دوسرے کے ساتھ متصل ہوتا ہے تو کہا جائے گا کہ یہ تو اس کے ساتھ مقارن ہے بوجہ اس کے ساتھ اتصال کے اگرچہ وہ اس کے بعد ہے۔
یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ اس شے کیساتھ مقارن ہے جو اس کے ساتھ قائم ہے بغیر کسی تقدمِ زمانی کے اور یہ بات بدیہی طور پر ً معلوم ہے کہ وہ اجسام جن کا بعض بعض کے ساتھ متصل ہوجبکہ حرکت کی مبدا کسی ایک طرف سے ہو تو بتحقیق ان میں حرکت شیئا ًفشیئا حاصل ہوتی ہے پس وہ اول اعتبار سے متصل اور مقارن ہوتی ہیں اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ دوسرے معنیٰ پر زمانا ً مقارن اور متصل ہیں اور اس شے کی مبدا جس کو انسان حرکت دیتا ہے پس جب وہ اپنے ہاتھ کو حرکت دیتا ہے تو اس کا وہ آستین جو اس کے ساتھ متصل ہے وہ بھی متحرک ہو جاتا ہے اوروہ بھی جو اس آستین کے ساتھ متصل ہے لیکن ہاتھ کی حرکت آستین کی حرکت سے پہلے اس کے اتصال کی وجہ سے ہے اور اسی طرح اس کے تمام نظائر کا حال ہے اور انسان جب کسی ایک رسی کو تیزی کے ساتھ حرکت دیتا ہے تویقیناً یہ حرکت بعض بعض کے ساتھ متصل ہوتی ہے اور ساتھ اس بات پرعلم کے کہ وہ طرف جو حرکت دینے والے کے ہاتھ کے ساتھ متصل اور قریب ہے وہ اس طرف سے پہلے متحرک ہوتی ہے اور یہی بات معقول ہے کہ افعال میں سے جب بھی کوئی فعل پایا جا رہا ہے تووہدھیرے دھیرے حادث ہوتاہے اور ایسا کوئی فعل معقول نہیں ہے کہ جو فاعل کے ساتھ زمان کے اعتبار سے(ابتدا اور انتہا دونوں میں ) مقارن ہو ۔
اگر کہا جائے کہ فاعل تو اگرچہ فاعل ہے پس عقلاً اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ ازل ہی سے صفتِ احداث کے ساتھ متصف تھا یعنی دھیرے دھیرے معدوم اشیا ء کو وجود دیتا رہا تو یہ بات عقلاً سمجھ میں نہیں آتی کہ ازل سے اس کا مفعولِ معین اس کی ذات کے ساتھ مقارن تھا اور کسی بھی زمانِ یسیر (معمولی سا وقت )کے ساتھ