کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 190
اس کے اوپر کسی بھی زمان کے ایک لمحے کے ساتھ متقدم نہ ہو بلکہ اس شے کو فرض کرنا عقل میں ایک ایسے فاعل کو فرض کرنا ہے جوایک فرضی اور غیر معقول بات ہے لیکن خارج میں اس کا کوئی وجود نہیں ۔
تم نے تو اپنے مخالفین سے بھی زیادہ ایک شنیع بات کہہ دی کیونکہ انہوں نے تو بغیر کسی زمان کے حدوث کو ثابت کر دیا تھا اور تم نے تو وہ بات کہہ دی جو بالکل عقلاً ہی سمجھ میں نہیں آتی پس تمہیں یہ کہا جائے گا کہ یہ بات تو معقول نہیں کہ کوئی فعل نفس الامر میں واقع ہو اور وہ کسی غیر ِ زمان میں ہو اسی طرح کسی ایسے مفعول کا وجود بھی معقول نہیں جو اپنے فاعل کے ساتھ مقارن ہو اور وہ اس سے بالکل زمان کے کسی (معمولی )لمحے کے ساتھ بھی متقدم اور اس سے پہلے نہ ہو۔
تقدم اور تاخر کی طرف رجوع :
تقدم اور تاخر کے بارے میں فلاسفہ کی رائے کے ساتھ مناقشہ کی طرف رجوع :
جو بات تم نے ذکر کی ہے یعنی کہ تقدم بالذات ایک امر معقول ہے اور وہ علت کا معلول پرتقدم ہے تو یہ ایک ایسا امر ہے جس کو تم نے صرف ذہنوں میں تو فرض کر لیا ہے اعیان میں اس کا کوئی وجود نہیں پس خارج میں کوئی ایسا فاعل معقول نہیں جس کے ساتھ اس کا مفعول مقارن اورمتصل ہو خواہ تم اسے علتِ تامہ کا نام دو یا نہ دو اور جو تم نے بات ذکر کی ہے کہ شمس اپنی شعاعوں کے لیے علت ِ فاعلیہ ہیں اور وہ اس کے ساتھ زمان میں مقارن ہے تو یہ دو مقدموں پر مبنی ہے :
۱۔ ایک تو اس بات پر کہ محض شمس ہی علت ِ فاعلہ ہے ۔
۲۔ دوسرایہ کہ وہ اس کے ساتھ زمان کے اعتبار سے مقارن اور متصل ہے۔ اور یہ دونوں مقدمے باطل ہیں ۔ پس یہ بات تو معلوم ہے کہ شعاع کے حدوث میں محض سورج کا وجود کافی نہیں ۔ بلکہ ایک ایسے جسم کا حدوث بھی ضروری ہے کہ وہ اس شعاع کو قبول کرنے والا ہو اور اس کے ساتھ ساتھ موانع کا زوال بھی ضروری ہے اور یہ بات بھی ہم تسلیم نہیں کرتے کہ سورج کی شعاع اس کے ساتھ زمان کے اعتبار سے مقارن ہے بلکہ بسا اوقات کہا جاتا ہے کہ وہ تو اس سے متاخر ہے اگرچہ زمان کے کسی جزء یسیر (معمولی لمحہ) کے ساتھ ہو ۔
اسی طرح تم نے جو یہ مثال پیش کی ہے کہ کسی کہنے والے کا یہ کہنا کہ میں نے اپنی ہاتھ کو حرکت دی تو چابی متحرک ہوئی یا میں نے اپنے ہاتھ کو حرکت دی تو میرا آستین متحرک ہوا یہ بھی اُن دونوں مقدمات پر مبنی ہے جو کہ باطل ہیں ؛پس کون ہے وہ شخص جو اس بات کو تسلم کرے کہ ہاتھ کی حرکت آستین اورچابی کی حرکت کے لیے علتِ تامہ ہے؟ بلکہ دونوں حرکتوں کا فاعل تو ایک ہی ہے لیکن اس کا دوسرے کو حرکت دینا اول کو حرکت دینے کے ساتھ