کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 189
ان سے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ بات کیوں ممکن نہیں کہ تمام آسمان اور زمین غیر متناہی حد تک بذاتِ خود ایک ایسے مادے کے ساتھ مسبوق ہوں جس سے پہلے ایک اور مادہ تھا یعنی ہر مادہ سے پہلے کوئی اور مادہ تھا اور اللہ تعالیٰ کے ماسوا جتنے بھی مخلوق ہیں وہ سب کے سب حادث ہیں اور وہ عدم کے بعدوجود میں آنے والے ہیں اگرچہ ہر حادث سے پہلے کوئی ایک اورحادث ہے جس طرح کے وہ لوگ اس کے قائل ہیں جو ان امور میں جو اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے ارادوں سے قائم ہیں کیونکہ حوادث کا تسلسل اور ان کا دوام اگر ممکن ہے تو یہ بھی ممکن ہے اور اگر وہ ممتنع ہے تو پھر فلک کا قدم بھی ممتنع ہوا پس دونوں تقدیروں پر یعنی دونوں صورتوں پر فلک کا قدم لازم نہیں آئے گا اور ان کے لیے اس کے قدم کے اوپر کوئی حجت باقی نہیں رہتی باوجود یکہ انبیاء علیہم السلام نے اس بات کی خبر دی ہے کہ وہ مخلوق ہیں پس وہ کونسی بات ہے جس نے ان کو اُس بات کی مخالفت پر آمادہ کیا جس پر تمام رسول متفق ہیں اسی طرح تمام اہلِ ملل اور قدیم فلاسفہ کے سرکردہ لوگ بھی ،بغیر اس کے کہ اس کے مخالفت پر کوئی دلیلِ عقلی بالکل قائم نہیں کیونکہ جو بات یہ کہتے ہیں وہ تو نوعِ فعل کے قدم کا اثبات ہے نہ کہ عین فعل کا ،اس لیے کہ وہ تمام باتیں جن کے ذریعے عالم کے قدم کے قائلین استدلال کرتے ہیں تو وہ عالم میں سے کسی شے معین کے قدم پر دلالت نہیں کرتے بلکہ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ فعل کے اسباب (فاعل ،مادہ ،غایت اور صورت)کا اعتبار کرنا فعل کے قدم پردلالت کرتا ہے ۔ پس بے شک اگر وہ دلالت کرتا ہے اس بات پر تو یقیناً وہ فعل کے نوع کے قدم پر دلالت کرتا ہے نہ کہ اس کے عین کے قدم پر اور اس کے نوع کا قدم تو ممکن ہے باوجود یکہ یہ بھی کہا جائے کہ باقی ادلہ عقلیہ اس امرپر دلالت کرتے ہیں کہ فعل صرف اور صرف حادث ہی ہوتا ہے تو اس کے قائل ہونے کے باوجود بھی اس کے نوع کا قدم ممکن ہے اگر چہ وہ دھیرے دھیرے حادث ہو اور یقیناً فاعل خواہ مطلقاً ہو یا فاعل فاعلِ مختار ہو اس کا فعل صر ف اور صر ف حادث ہی بن سکتا ہے اگرچہ وہ شیئاً فشیئاًوجود میں آئے اور یقیناً حوادث کا دوام اسی مخلوقِ معین ازلی کے لیے ممکن ہے اسی طرح مفعولِ معین جو اپنے فاعل کے ساتھ مقارن ہو اور ازل سے اس کے ساتھ ہو تو یہ بھی ممتنع ہے باوجود یکہ انبیاء علیہم السلام نے اس بات کی خبر دی کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کے خالق ہیں اور اللہ تعالی نے آسمانوں اور زمینوں کوچھ دن میں پیدا کیا پس کیسے تم نے ایک صحیح نقلی اور صریح عقلی بات سے ایک ایسی بات کی طرف روگردانی کر لی جو اس کی ضد ہے بلکہ تم نے تو ایک ایسی شے کا قدم ثابت کیا کہ کوئی بھی دلیل اس کے قدم پر دلالت نہیں کرتی ہے بلکہ اس کے حدوث پر دال ہے۔ پھر ان لوگوں سے یہ بھی کہا جائے گا کہ جب رب تعالیٰ اپنے ارادوں کے ساتھ فاعل ہے جیسے کہ تم نے کہا ہے اور جیسے کہ اس پر دوسرے ادلہ بھی دلالت کرتے ہیں اور تم اور تمہارے ان بھائیوں نے بھی تسلیم کر لیا ہے جو کہ عالم کے قدم کے قائل ہیں تو کسی بھی مفعول کا ایسا فاعل عقلاً سمجھ میں نہیں آتا جو اس کے ساتھ مقارن ہو اور