کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 188
کے قول کی حقیقت یہی ہوئی کہ حوادث میں سے کسی بھی شے کے لیے کوئی محدث نہیں ہے اور اگر ان کے نزدیک فلک نفسِ ناطقہ کا نام ہے تو تمام حوادث میں ان کا قول قدریہ کے قول کی طرح ہوا، جو کہ فعلِ حیوان میں ان کا قول ہے ،اسی وجہ سے اس جگہ میں اس مقام پر ابن سینا اس بات کی طرف مجبور ہوا کہ وہ حرکت کو ایک ایسی شے مان لیں کہ وہ ایک امر واحد ہے اور ازل سے موجود ہے نہ کہ کوئی ایسی شے ہے جودھیرے دھیرے رفتہ رفتہ وجو دمیں آتی ہے جس طرح کہ ہم نے ان کے الفاظ ذکر کر دیئے ہیں اور اس کے فساد کو بھی بیان کر دیا ہے اور یقیناً اس نے یہ بات اس لیے کہی تاکہ اس کے اوپر اس بات کا الزام نہ آئے کہ علتِ تامہ سے تو تمام حوادث کا حدوث دفعتاً واحدتاً (یکبارگی )نہیں ہوتا بلکہ ایک حادث کے بعد دوسرا یکے بعد دیگرے وجود میں آتا ہے پس اس نے حرکت کے شیئا ًفشیئا ًحدوث میں صریح عقل اور اسی طرح صریح مشاہدہ کی مخالفت کی تاکہ اس کے لیے وہ بات (معارضہ سے )محفوظ رہے جس کا اس نے دعویٰ کیا ہے یعنی کہ رب العالمین نے کسی شے کو وجود نہیں دیا یعنی اس نے کسی شے کو حادث نہیں کیا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ان کے نزدیک علتِ تامہ ہیں اور ان کے ماہرین نے ان کے قول کے فساد کا اعتراف کر لیا ہے۔ ابن ملکا کا عقیدہ اور اس پر رد : وہ لوگ جنہوں نے اللہ تعالی کی ذات کے ساتھ ایسے ارادوں کے قیام کا قول اختیارکیا ہے جو یکے بعد دیگرے وجود میں آتے ہیں جیسے ابو البرکات اور اس کے امثال ان لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ افلا ک کے لیے تو موجب بالذات ہی ہیں ا ور اللہ تعالیٰ اپنے ان ارادوں کے ذریعے حوادث کو پیدا کرتے ہیں جو ارادے اس کی ذات کے ساتھ قائم ہیں اور یکے بعد دیگرے وجود میں آتے ہیں پس ان لوگوں سے اولاً تو یہی بات کہی جائے گی جو ان کے ہم نواؤں سے کہی گئی اور ان کی طرف حجت بہ نسبت ان کے زیادہ قریب ہے اس لیے کہ وہ ان کی بہ نسبت حق کے اقرب ہیں اور ان سے کہا جائے گا کہ جب یہ بات ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات حوادث کو دھیرے دھیرے وجود دے دیں باوجود ان ارادوں کے جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم ہیں اور وہ ارادے بھی دھیرے دھیرے وجود میں آتے ہیں تو پھر یہ بات کیوں جائز نہیں کہ افلاک بھی حادث ہوں بعد اس کے کہ وہ موجود نہیں تھے بوجہ ان ارادوں کے جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم ہیں اور متعاقب ہیں اور بتحقیق اہلِ نظر میں سے حذاق کی ایک جماعت نے اس بات کو بھانپ لیا ہے جیسے کہ اثیر الازھری چنانچہ اس نے کہا کہ یہ بات تو ممکن ہے کہ وہ ان تمام حوادث کو پیدا کرے بوجہ اس ارادے کے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اگرچہ وہ ایک غیر متناہی حد تک مسبوق بارادۃ اخری ہے یعنی اس کے لیے کوئی ابتداء نہیں یعنی ہر ارادے سے پہلے ایک دوسرا ارادہ سابق ہے ۔