کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 187
ا ن کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ تو قیاسِ باطل ہے اور تشریع فاسد ہے اور یہ اس لیے کہ یہ لوگ جب یہ کہتے ہیں کہ رب تعالیٰ بذاتِ خود حوادث کو یکے بعد دیگرے وجود دیتے ہیں یعنی ایک کام دوسرے کے بعد کرتے ہیں یا یہ کہ وہ کسی شے پر کلام کرتے ہیں تو یہ بات ممتنع نہیں بلکہ صریح عقل کے مطابق جائز ہے اس لیے کہ اس سے زیادہ یہ بات ثابت ہو جاتی ہے اس کے نتیجے میں اول حادث کا وجود اور اس کی انتہاء دوسرے کے وجود کے لیے شرط ہو جس طرح کہ والد کا وجود ولد (بیٹے ) کے وجود کیلئے شرط ہے ۔
یہ بات کہ دوسرے (حادث)کی فاعلیت کا تمام پہلے حادث کے عدم کے بعدحاصل ہوتا ہے اور اول کا عدم ثانی میں شرط قرار دیا تو یہ احد الضدین کے عدم کودوسرے ضد کے وجود کیلئے اشتراط کے بمنزلہ ہواباوجود یکہ اس ضد حادث کا فاعل اول کا عدم نہیں پس کیسے وہ اول کے لیے معدم(فنا کرنے والا) بنے گا ۔
اگر یہ کہا جائے کہ دوسرے فعل کو وجود دینا اول کے عدم کے ساتھ مشروط ہے یعنی کہ پہلا منتہی (ختم )ہو اور انتہاء تک پہنچ جائے اور یہ ایک ضد کے وجود کے لیے دوسرے ضد کے اشتراط کی طرح ہوا اور اگر شرط اول کا اعدام اور ختم کر دینا ہے تو اس کا فعل اس کے دوسرے فعل کے ساتھ مشروط ہو جائے گا اور اعدام ایک امرِ وجودی ہے اور یہ بھی کہ ضد ِ مانع (جو کہ دوسرے کے وجود سے مانع ہے )کے عدم کے وقت فاعل کا مرید اور قادر ہونا تام ہو جاتا ہے یعنی ایک ضد اپنی انتہاء کو پہنچا توتب دوسرے کا ارادہ اور قدرت تام ہو جاتا ہے اور وہ تو امورِ وجودیہ ہیں اور وہی اس کا تقاضہ کرنے والی ہے یا بذاتِ خود یا اس صفت کے ساتھ جو اس سے صادر ہو پس کوئی بھی موجود شے حاصل نہیں ہوتا (وجود میں نہیں آتا)مگر اللہ تعالیٰ ہی کی ذات سے اور وہی اس کا منشا ہے ۔
یہ لوگ تو اس بات کے قائل ہیں کہ فاعلِ اول کے ساتھ کوئی صفت اور فعل قائم نہیں بلکہ وہ تو ایک ذاتِ مجردہ اور بسیطہ ہے، اور حوادثِ مختلفہ اس کی ذات سے صفتِ دوام کے ساتھ حادث (پیدا)ہو رہی ہیں بغیر کسی ایسے امر کے جو اس سے حادث (پیدا)ہو اور یہ صریح عقل کی مخالفت ہے چاہے وہ اُسے مُوجِب بالذات کہیں یا فاعلِ مختار کہیں اس لیے کہ معلولات کا تغیر اور ان کا اختلاف بغیر تغیرِ علت کے اور بغیر اختلافِ علت کے ایک ایسا امر ہے جو صریح عقل کے خلاف ہے اور فاعلِ مختار کا فعل یعنی فاعلِ مختار کا مختلف حوادث کو بغیر کسی ایسے سبب کے وجود دینا جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہو یعنی ارادہ بلکہ مختلف الانواع ارادوں کے بغیر تو یہ بات صریح عقل کے خلاف ہے۔
یہ لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ تمام کے تمام حوادث کی مبدا فلک کی حرکت ہے اور اس کے اوپر کوئی ایسے امورِ حادثہ نہیں جو اس کی حرکت کے لیے مُوجِب (تقاضا کرنے والی )اور سبب ہوں باوجود یکہ فلک کی حرکات تو رفتہ رفتہ حادث ہوتی ہیں (شیئا ًفشیئاً)اور ان کے لیے ایسے اسباب نہیں پائے جاتے جو ان کو وجود یتے ہیں اور افلاک کی حرکات ہی تمام حوادث کے لیے اسباب ہیں پس جب ان کے لیے کوئی محدث اور پیدا کرنے والا نہیں تو ان