کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 186
کا حدوث جس طرح تم میں سے اہلِ سنت کے علماء اس کے قائل تھے اور ان کا قول یہ ہے کہ رب تعالیٰ ازل سے متکلم ہیں جب چاہیں اور جیسے چاہیں ۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ فعل ،حیات کے لواز م میں سے ہے اور رب تعالیٰ ازل سے حی ہے اور زندہ ہے پس وہ ازل سے ہی فعال ہے یعنی افعال صادر کرنے والا ہے اور یہ تو تمہارے ائمہ کا معروف قول ہے جیسے کہ امام احمدبن حنبل ،امام بخاری جو صاحب صحیح ہیں ؛ اور نعیم بن حماد الخزاعی ،عثمان ابن سید الدارمی رحمہم اللہ اور ان کے علاوہ اور لوگ؛ جیسے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور امام جعفر صادق رحمہ اللہ اور ان کے علاوہ دیگر؛ اور بعض وہ علماء جو ان کے بعد آئے ہیں ۔وہ یہ بات اہل سنت کے آئمہ سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: جس نے بھی اس عقیدہ کی مخالفت کی وہ بدعتی اور گمراہ ہے۔ اور یہ لوگ اور ان لوگوں کے امثال تمہارے ہاں آئمہ اہلِ سنت اور آئمہ حدیث ہیں اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ اور تابعین کے قول کو سب سے زیادہ اچھی طرح جاننے والے ہیں ۔اور یہ لوگ اور ان کے علاوہ دیگر جیسے سفیان ابن عیینہ رحمہ اللہ نے اس بات پر کہ اللہ تعالیٰ کا کلام مخلوق نہیں ہے۔ اس طرح استدلال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی بھی شے پیدا نہیں کی مگر لفظ ’’کن ‘‘کے ذریعے ۔پس اگر لفظِ ’’کن ‘‘بھی مخلوق ہے تو پھر وہ تسلسل لازم آئے گا جو خلق سے مانع ہے۔ پس اگر لفظِ ’’کن ‘‘مخلوق ہوا تو اُس ذات کے اصل خالق ہونے اور فاعل ہونے میں تسلسل لازم آئے گا۔ پس یہ اصل تاثیر میں تسلسل ہے اور وہ باتفاقِ عقلاء ممتنع ہے بخلاف اس تسلسل کے جو معین آثار میں ہوتا ہے۔ اس لیے کہ یقیناً جب وہ ذات صرف اور صرف اپنے لفظِ ’’کن ‘‘کے ذریعے خالق ہے تو یہ بات ممتنع ہوئی کہ اس کا قول مخلوق بنے۔ اور اس کی مثال یہ ہے کہ جیسے یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات صرف اس کے علم اور قدرت ہی کی وجہ سے خالق بنتی ہے تو یہ ممتنع ہے کہ علم اور قدرت یہ بھی مخلوق ہوں اس لیے کہ ایسی صورت میں تو لازم آئے گا کہ اس مخلوق کا وجود ممتنع ہو مگر بعد اس کے وجود کے، اس لیے کہ وہ ذات انہیں صفات کے ذریعے خالق بن رہا ہے تو ضروری ہے کہ اس کا تمام مخلوق پر مقدم ہونا پس اگر وہ خود بھی مخلوق ہے تو اس کا اپنے نفس پر تقدم لازم آئے گا اور یہ ایک ایسی حجت ہے جو عقل اور شرع دونوں اعتبار سے صریح ہے بخلاف اس کے کہ اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ لفظِ ’’کن ‘‘سے پیدا کرتے ہیں اور اس دوسری چیزکو ایک دوسرے لفظِ ’’کن ‘‘سے پیدا کرتے ہیں تو یہ قول اس بات کو مستلزم ہے کہ ایک اثر کا وجود دوسرے اثر کے بعد ہو اور اس کے جواز میں تو عقلاء اور آئمہ اہلِ سنت کے درمیان نزاع اور اختلاف پایا جاتا ہے ۔ پھر فلاسفہ اور بہت سے اہلِ کلام بھی اس کو جائز اور ممکن سمجھتے ہیں اور مقصود یہ ہے کہ جب تم نے ایک قدیم اور ازلی ذات سے اس امرکو ممکن سمجھا کہ وہ ایک حوادث کو یکے بعد دیگرے وجود دے تو اسی طرح یہ لوگ بھی عالم کے اندر ایسے حوادث کے قائل ہیں کہ جو فلک میں دھیرے دھیرے وجود میں آتے ہیں ۔