کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 185
نے ان کے کلام کے ساتھ کچھ اور امور بھی اپنی طرف سے ملا دیئے جو عقل اور شرع کے اعتبا رسے بہت باریک تھے۔ اور وہ ان متکلمین کے خلاف استدلال کرنے لگے جو عقل اور شرع کے زیادہ اقرب تھے ان کے بہ نسبت اس قول کے بطلان پر جس میں وہ ان کے مخالف تھے اور اس میں انہوں نے حق کے ساتھ مخالفت کی تھی اور وہ اس کو حق کی مخالفت پرحجت قرار دینے لگے، اور وہ یہ فرض کرنے لگے کہ رسولوں کے پاس کوئی حق نہیں ہے اور ان کے اطباء کے پاس بھی سوائے ان باتوں کے جن کے متکلمین قائل ہیں اور یہ لوگ بمنزلہ ان لوگوں کے ہوئے جنھوں نے بعض جاہل مسلمانوں ، مشرکوں اور اہلِ کتاب کے فساق کے پاس وقت گزارا ہو تو وہ ان لوگوں کے جبر و ظلم پر مشتمل بعض اشکالات کو ذکر کرنے لگے اور اس کو مسلمانوں کے دین کے بطلان کے خلاف یہ فرض کرتے ہوئے حجت قرار دینے لگے کہ مسلمانوں کا دین ہی وہ واحدہے جس پر وہ بھی قائم ہیں باوجود یکہ وہ خود ان کی بہ نسبت زیادہ جہل اور ظلم میں پڑا ہوا ہے جس طرح کہ اہلِ کتاب میں سے ایک گروہ یعنی یہود و نصاریٰ میں سے ایک گروہ مسلمانوں کے دین میں اعتراض کرنے کے لیے ان چیزوں سے سہارا پکڑتا ہے جو وہ اپنے بعض افراد میں پاتے ہیں یعنی وہ فواحش جو نکاحِ تحلیل کے ذریعے ہوتے ہیں یا اس کے علاوہ کسی اور طریقے سے ۔
پس جب انصاف کیساتھ ان کاتقابل کیا جائے تو ان میں موجود فواحش ،ظلم ،جھوٹ اور شرک اس سے کئی گنا زیادہ ہے جو جو دین ِ اسلام کی طرف منسوب فساق میں پایا جاتا ہے اور جب ان کے لیے حقیقتِ اسلام کو بیان کر دیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان فواحش ،ظلم ،جھوٹ اور شرک میں سے کچھ بھی نہیں ہے اس لیے کہ ہرملت کے بعض افراد میں کچھ نہ کچھ شر داخل ہوتا ہے لیکن وہ شر جو غیر ِ مسلمین میں داخل ہے ۔یہ اس شر کی بہ نسبت زیادہ ہے جو مسلمان فساق میں موجود ہے اور جو شر مسلمانوں میں پایا جاتا ہے وہ کئی گنا زیادہ ہے اس کی بہ نسبت جو غیر میں پایا جاتا ہے اسی طرح اسلام میں اہلِ سنت کی جماعت میں خیر اکثر ہے بہ نسبت اس جماعت کے افراد کے جن میں بدعات پائی جاتی ہیں اور وہ شر جو اہلِ بدعت میں موجود ہے یہ اس شر سے اکثر ہے کہ جو اہل سنت میں موجود ہے ۔
اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ:آپ کی بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ عالم کا حوادث سے خالی ہونا ممتنع ہے ۔ اور پھر اس کے بعد اس میں حوادث موجود ہوتے ہیں ؟
لیکن ہم یہ کہتے ہیں : یہ عالم ازل سے حوادث پر مشتمل رہا اور قدیم تو عالم کا اصل ہے جیسے کہ افلاک اور نوعِ حوادث جیسے کہ افلاک کی جنس حرکت ہے ،رہا حوادث کے اشخاص کا معاملہ تو وہ باتفاق حوادث ہیں یعنی معین اشیاء اور ایسی صورت میں ازلی ذات نوعِ حوادث کو مستلزم ہے کسی حادثِ معین کونہیں ،پس تمام حوادث کا قدم لازم نہیں آئے گا نہ تمام کا حدوث بلکہ اس کے ایک نوع کا قدم لازم آئے گا اور ان کے اعیان (یعنی خاص خاص حوادث)