کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 184
پر تفصیل کے ساتھ بیان کر چکے ہیں ۔ اور اس میں اہل نظر کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے اور اس کے مقدمات میں بہت طول اور تفصیل ہے اوراس میں بہت سے امور مختلف فیہ ہیں ۔اور ان میں سے بعض وہ بھی ہیں جو کسی نتیجے تک نہیں پہنچتے ۔لہٰذا ہم انھیں تفصیل کے ساتھ بیان نہیں کرتے کیونکہ یہاں اس کی ضرورت نہیں ہے ۔
یہ ایک مذموم (ناپسندیدہ)کلام ہے کیونکہ بہت سے اہلِ نظر اس کے قائل ہیں کہ سکونِ امر عدمی ہے اور ہم تو کہتے ہیں کہ: جو ہرِ فرد کا اثبات ایک باطل چیز ہے اور اجسام جوہرِ فردسے مرکب نہیں ہے اور نہ ہیولیٰ اور صورت سے (مرکب ہیں )؛بلکہ جسم تو بذاتِ خود ایک واحد چیز ہے رہا اجسام کا تفریق کو قبول کرنا یا نہ کرنا تو یہ مقام اس کے تفصیل سے بیان کرنے کانہیں ۔ اور اس تقدیر پر کہ وہ اجسام تفریق کو قبول کرتے ہیں تو ضروری نہیں کہ وہ اجسام لامتناہی حدتک تفریق کو قبول کریں ۔ بلکہ ایک خاص حد تک وہ تفریق اور تقسیم کو قبول کرتے ہیں ۔ اور اس کے بعد جسم اتنا چھوٹا اور معمولی ہو جاتا ہے کہ وہ فعلی اور حسی تقسیم کو قبول نہیں کرتا۔ بلکہ وہ ایک اور جسم کی طرف منتقل ہو جاتا ہے یعنی ایک دوسری شکل اختیار کر لیتا ہے جس طرح کے پانی کے اجزاء میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ جب وہ بہت چھوٹے ہو جاتے ہیں تو وہ ہوا میں تبدیل ہو جاتے ہیں ۔ باوجود اس کے کہ دونوں جانب میں سے ایک دوسرے سے متمیز ہوتے ہیں ۔ لہٰذا وہاں ایک ایسے جزء کے اثبات کی کوئی حاجت نہیں جس کا ایک جانب دوسرے جانب سے متمیز نہ ہو اور جدا نہ ہو؛ اور نہ کسی ایسے تجزیہ اور تفریق کے اثبات کی حاجت ہوتی ہے جو غیر متناعی حد تک ہو بلکہ اجسام چھوٹے سے چھوٹے ہو جاتے ہیں ۔ اور اس کے بعد پھر جب بہت زیادہ چھوٹی شکل اختیار کر لیتے ہیں تو وہ ایک اور چیز کی طرف تبدیل ہو جاتے ہیں یعنی کوئی اور شکل اختیار کرلیتے ہیں ۔
پس یہ قول دوسرے اقوال کی بہ نسبت عقل کے زیادہ قریب ہے۔
پس چونکہ ان لوگوں کی دلیل ان دو مقدمتین میں سے کسی ایک پر مبنی ہے یعنی جواہرِ فردہ کا اثبات اور یہ کہ اجسام اس سے مرکب ہیں یا اس بات کا اثبات کہ سکون ایک امر وجودی ہے (اوراس میں اختلاف ایک مشہور بات ہے )۔غور اور تحقیق کرنے کے بعد دلیل صرف اور صرف اس کے نقیض پر قائم ہوتی ہے (یعنی یہ کہ جواہر فردہ کی نفی ،اور اجسام کا ان سے عدم ترکیب اور سکون کا امر ووجودی ہونا)۔اس لئے ان کے بیان کرنے میں کلام تفصیل سے ذکر نہیں کیا گیا۔
اللہ تعالیٰ کے انبیاء جو کچھ انسانیت کی طرف لے کر آئے ان میں سے کسی شے کے اثبات کے لیے بھی ان باطل طریقوں کی طرف حاجت نہیں ہے۔ وہ لوگ جو اس جھنجھٹ میں پڑ گئے وہ علم اور عقل والے تھے یعنی مخالفین خودساختہ فلاسفہ اور عقل کے اعتبار سے صریح اور نقل کے اعتبار سے صریح تھے؛ لیکن عقل اور مشاہدے کے اعتبار سے وہ بات غلط ہے جو ان سے صادر ہوئی اور ان میں ان کے ساتھ اہل باطل فلاسفہ بھی شریک ہوگئے۔اور انہوں