کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 181
باطل بھی تھا اوراسی طرح وہ گروہ جو عالم کے قدم کے قائل ہیں ۔
انہوں نے جب اس بات کا اعتقاد کر لیا کہ فاعل کافاعل بننا بعد اس کے کہ وہ فاعل نہیں تھا یہ بات ممتنع ہے اور یہ بھی (ممتنع ہے )کہ وہ کسی حادث کو وجود دے لیکن وہ (وجود دینا )کسی خاص وقت میں نہ ہو اور عدمِ محض میں وقت کا پایا جاناممتنع ہے تو وہ بھی دوامِ نوع اور دوامِ عین کے درمیان فرق کی طرف راہ نہ پا سکے ۔ اور انہوں نے یہ گمان کیا کہ یہ عین ِ مفعول کے قدم کو مستلزم ہے پس ان کے قول پر ایک ایسے مفعولِ قدیم کا وجود لازم آتا ہے کہ جو ازلی ہو اور فاعل کے ساتھ مقارن ہو
پھر ان میں سے بعضوں نے یہ کہا کہ کسی فاعل کا اپنے اختیار کے ساتھ اس طور پر فاعل ہونامعقول نہیں کہ اس کے ساتھ اس کا مفعول قدیم اسکے ساتھ مقارن ہو (پس اس سے فرار کیلئے )انہوں نے کہا کہ وہ تو موجب بالذات ہیں ،اختیار کے ساتھ فاعل نہیں ہیں اور انہوں نے التزام کیا ایک ایسے لازم کا جو جمہورِ عقلاء کے نزدیک معلوم الفساد ہے یعنی ایک ایسے مفعولِ معین کا وجود جو اپنے فاعل کے ساتھ مقارن ہو ازلاً و ابداً اور وہ (اس محذور کے اثبات سے بچنے کیلئے )اس کے قائل ہوئے کہ اس کافاعل ہونا ثابت ہوگا بعد اس کے کہ وہ فاعل نہیں تھا ۔
جب ان سے کہا جائے کہ تم اپنے اس قول کے قائل بن جاؤ ساتھ تمہارے اس قول کے بھی کہ یہ بات ممکن ہے کہ وہ ذات فاعل بن جائے بعداس کے کہ وہ فاعل نہیں تھا اور پھر وہ اپنے دو مقدورین میں سے ایک کو بلا کسی مرجح کے ترجیح دیتا ہے تو تحقیق ان کے ذمے یہ بات لازم آتی ہے کہ وہ ایک ایسے امر کے قائل ہو جائیں جو پورا کا پورا باطل ہے اور یہ بھی (لازم آئیگا)کہ وہ قائل ہو جائیں ایک ایسے لازم کا جس کا (کلی طور پر)بطلان ظاہر ہے بغیر اس ملزوم کے جس میں کچھ حق اور کچھ باطل ہے جس نے ان کو اس لازم کی طرف مجبور کر دیا اور یہ بھی (لازم آئیگا)کہ اس تقدیر پر جس طرح ابھی ہم بات کر رہے ہیں اور وہ یہ (تقدیر )ہے کہ کوئی ازلی ان حوادث کو مستلزم نہیں ہوتا بلکہ وہ حادث موجود ہوتے ہیں بعد اس کے کہ وہ معدوم تھے تو اس تقدیر پر لازم آئے گا کہ یہ عالم تمام کسی زمانے حوادث سے میں خالی تھا اور اس کے بعد اس میں بلا کسی سببِ حادث کے یہ حوادث موجود ہوئے اور یہ تو ان حرَّانیین کے قول کی طرح ہے جو کہ پانچ اشیاء کے قدیم ہونے کے قائل ہیں اور ان کو واجب بنفسہ مانتے ہیں ۔ایک واجب بنفسہ ،دوسرا مادہ ،تیسرا مدت ،چوتھا نفس اور پانچواں ھیولیٰ ،جس طرح کہ دیموقراطیس ،ابن زکریا طبیب اور جو ان دونوں کے موافقین ہیں ،اس کے قائل ہیں یا اس قول کے مشابہ ہے جو بعض قدماء سے منقول ہے اور وہ یہ ہے کہ عالم کے جواہر (اجسام)ازلیہ ہیں (اور یہی تو قدم ِ مادہ کا قول ہے)اور (یہ ازلی اجسام ) بغیر کسی نظم و ضبط کے متحرک تھے پھر اتفاقاً (بغیر کسی سبب موجب کے )یہ آپس میں ایک خاص ترتیب سے ملے جس سے یہ عالم وجود میں آیا۔