کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 180
جانتا ہے ساتھ ان امور کے جن کے فساد کا اسے علم نہیں ،پس وہ اُس کو اس قول کا الزام دے جو من کل الوجوہ فاسد ہے اور اس قول سے اسے نکال لے جو پورا کا پورا صحیح ہے اس لیے کہ اس طائفے کے قول کی مثال اس رنگ برنگ چیز کی ہے جس میں سفید وسیاہ دونوں ہوں اور ظاہر ہے کہ ایسا چت کبرا خالص کالے سے بہتر ہے۔
کیونکہ وہ گروہ جس نے یہ کہا کہ قادر ذات کے لیے اپنے دو مقدورین میں سے ایک کو دوسرے پر ترجیح دینا بغیر کسی مرجح کے ممکن ہے تو اس نے یہ بات اس لیے کہی ہے کہ وہ یہ بات جانتا ہے کہ فاعلِ قادر کے لیے ضروری ہے کہ اس کا فعل حادث ہوا ور اس کا فاعل ہونا باوجود فعل کے قدیم ہونے کے یہ جمع بین النقیضین ہے۔ اور انہوں نے فعل کے نوع اور فعل کے عین کے درمیان فرق کی طرف سیدھی راہ نہیں پائی یعنی اس کو وہ نہیں سمجھے بلکہ ان کا اعقاد یہ بھی ہے کہ یہ بات ممتنع ہے کہ حوادث کے لیے کوئی اول نہ ہو یعنی حوادث کا ازلی ہونا ممتنع ہے پس اس کا لازمی نتیجہ ہے کہ وہ اس کا بھی قائل ہو گا کہ فعل کا دوام بھی ممتنع ہے لہٰذا لازم آئے گا کہ وہ ذات فاعل تھا بعد اس کے کہ وہ فاعل نہیں تھالہٰذاقادر کا اپنے دو مقدورین میں ایک کا دوسرے پر بلا مرجح کے ترجیح دینا لازم آئے گا ،کیونکہ قادریت یعنی کسی فعل پر قادر ہونا ،یہ خاص نہیں ہے اور ازل سے نہیں ہے ۔
اگر اس کے اختصاص کا یا اس کے حدوث کا قول اختیار کیا جائے تو صفتِ قدرت کا حدوث لازم آئے گا بغیر کسی محدث کے یعنی بغیر کسی موجب کے اور اس کا تخصیص بلا کسی مخصص کے لازم آئے گا اور یہ بات بھی (لازم آئیگی )کہ وہ بغیر کسی سبب کے قادر بنا بعد اس کے کہ وہ قادر نہیں تھا اور امتناع کی صفت سے امکان کی طرف فعل منتقل ہوا بغیر کسی ایسے سبب کے جو اس انتقال کا موجب ہواور تقاضا کرتا ہو اور جب یہ بات ممکن ہوئی تو اس کا اپنے دو مقدورین میں سے کسی ایک کے لیے مرجح ہونے کا امکان تو بطریقِ اولیٰ ثابت ہو جائے گا اور یہ جو لوازم ہم نے ذکر کر لیے اگرچہ جمہور ان کے بطلان کے قائل ہیں اور وہ یہ کہتے ہیں کہ ہمیں ان لوازم کی طرف ان ملزومات نے مجبور کردیا جو ہم نے پیچھے ذکر کر دیئے یعنی ان کا یہ گمان کر نا کہ نوعِ حوادث اور عینِ حوادث کے درمیان کوئی فرق نہیں اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ان لوازم کے ساتھ ان ملزومات کے انتفاء کے بھی قائل ہو جاؤ تو وہ کہتے ہیں کہ قادر اپنے دو مقدورین میں سے ایک کو بغیر کسی مرجح کے ترجیح دیتا ہے اور حوادث کو بغیر کسی سبب کے پیدا کرتا ہے باوجود یہ کہ فاعلِ قادر کے ساتھ اس کا ساتھ مفعولِ متعین مقارن اور متصل ہوتا ہے ۔
یہ بات بھی کہ عینِ فعل اور عینِ مفعول کے لیے کوئی اول ثابت نہیں یعنی وہ ازلی ہیں پس ان کے ذہن میں یہ بات لازم آتی ہے کہ وہ ایسے لوازم کے قائل ہو جائیں کہ جن کا بطلان ان کے اُن ملزومات کی نفی کے ساتھ ظاہر ہے جو ان کے اس نظر سے ثابت ہوتے ہیں اور واضح طور پر باطل ہیں اورا س میں بھی جس کا بطلان مخفی ہے پس تحقیق ان پر اس بات کا الزام آتا ہے کہ وہ ایسے لازمِ باطل کے قائل ہو گئے ہیں جس کی طلب کوئی حاجت ہی نہیں اور ساتھ ساتھ اس چیز کی نفی کے جس چیز نے ان کو ان کی طرف محتاج کر دیا باوجود اس میں کچھ حق تھا اور