کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 18
اقامت گزین تھے۔ اور ان سے وہ امانت حاصل کی جو انھوں نے صحابہ کرام سے سن کر یاد کر رکھی تھی۔ سنت نبوی کی یہ امانت ان لوگوں تک پہنچی جنھوں نے اس کی جمع وتدوین کا بیڑا اٹھایا ۔مثلا امام مالک رحمہ اللہ ، امام احمد رحمہ اللہ اور ان کے شیوخ وتلامذہ اور معاصرین، رجال تدوین کے یہاں پہنچتے وقت حدیث نبوی بالکل تروتازہ اور عطر نبوت سے بھر پور تھی ،حدیث نبوی کے امانت دار محافظین نے جوں کی توں یہ امانت دوسرے امانت دار محافظین تک پہنچا دی۔ آگے چل کر یہ امانت کتاب اللہ کے بعد مسلمانوں کے لیے نہایت گراں قدر ورثہ قرار پائی ۔
خلاصۂ کلام! صحابہ کے طفیل اللہ تعالیٰ نے حدیث نبوی کالازوال خزینہ ہمارے لیے محفوظ کر لیا ۔ان کی تلواروں سے ہی دیارو امصار اوربلاد فتح کیے اور ان کی مساعی جمیلہ سے ہی اسلامی دعوت پھلی پھولی ۔اور آج ہمارے لیے یہ عالمِ اسلام منصّۂ شہود پر جلوہ گر ہوا جس میں کثرت سے اوطان واقوام موجود ہیں اور ان علوم وعلماء کی بھی کمی نہیں جواسلام کے اولیں ادوار میں کرۂ ارضی کی زینت اور بے حد ناگزیر سمجھے جاتے تھے ۔زمانہ حال واستقبال میں علماء کی صلاحیت اور رجوع الی اللہ کے باعث اسلام کی شوکت رفتہ پھر لوٹ کر آئے گی ۔اور انہی کی جدوجہد کے بل پوتے پر اسلامی نظام کوحیات نو حاصل ہوگی۔ وَمَا ذٰ لِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیْزٍ۔
جس طرح امرا اور اہل ثروت کے بیٹے اپنے آباء سے املاک واموال ورثہ میں پاکر دنیا میں عزت ومنصب حاصل کرتے ہیں ۔یہ دوسری بات ہے کہ برے ساتھی ان کو اس وہم میں مبتلا کردیں کہ ان کی خوشحالی وفارغ البالی کا راز اس ما ل کو برباد کرنے میں مضمر ہے ،اسی طرح ہم نے یہ اسلامی عز ومجد صحابہ وتابعین رحمہم اللہ سے ورثہ میں پائی ۔ہمیں بخوبی معلوم ہے کہ دنیا کی کسی قوم نے ایسا گراں بہاورثہ نہیں پایا ۔اسلامی ورثہ میں تقدس وبرکت کے اعتبار سے گراں تر حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی وہ خدمت ہے جو آپ نے قرآن کی جمع وتدوین اور اس کو مصاحف میں محفوظ کرنے کے سلسلہ میں انجام دی ۔اگر کرۂ ارضی پر رہنے والے تمام مسلمان اس عظیم احسان وعنایت پر شب وروز ان کے لیے اجر وثواب کی دعائیں مانگیں تو بھی وہ ان کا حق ادا نہیں کر سکتے ۔اللہ تعالیٰ ہماری جانب سے ان کو اجر عظیم عطا فرمائے۔(آمین)
اس عظیم میراث میں سے گراں قدر خزانہ ہر صحابی کی وہ توجہ ہے جوانہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اقوال وارشادات ، سیرت و کردار اور اوامرونواہی کے تحفظ کے سلسلہ میں انجام دی ۔صحابہ نے یہ امانت جوں کی توں اپنے بھائیوں ، بیٹوں اور تابعین کو سپرد کر دی کسی نبی کے اصحاب نے امانت کی سپردگی میں ایسی احتیاط سے کام نہ لیا ہوگا۔اس سے عیاں ہوتا ہے کہ اخلاق و تشریع، اقوام و امم کی تکوین و تخلیق اور مختلف انسانی طبقات و اجناس و اوطان میں یگانگت پیدا کرنے کے لیے یہ عظیم ترین انسانی وراثت تھی۔بنی نوع انسان کی ان خدمات جلیلہ کے پیش نظر صرف وہی شخص صحابہ کی تنقیصِ شان کا مرتکب ہوسکتا ہے جو غیر مسلم ہو اور دوسروں کو دھوکہ دینا چاہتا ہو یا زندیق ہو اور اس کے ظاہر و باطن میں تضاد پایا جاتا ہو۔