کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 179
معنی مراد لیا ہے تو یہ ان الفاظ سے ایک دوسرا معنی مراد لیتے ہیں جو مسلمانوں کے دین کے منافذ اور الٹ ہوتا ہے تاکہ اس کے ذریعے یہ بات ظاہر ہو جائے کہ یہ مسلمانوں کے موافق ہیں ان کے اقوال میں اور یہ کہ وہ اس بات کے بھی قائل ہیں کہ عالم حادث ہے اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ جتنے بھی ماسوا ہیں تو وہ ہمارے نزدیک بھی عافل ہیں اور محدث ہیں اس معنی پر کہ وہ اس کے لیے معلول ہیں اگرچہ وہ خود قدیم اور ازلی ہیں اس کی ذات کے ساتھ اور واجب ہیں اس کی وجہ سے یعنی واجب لغیریہی اور ازل سے ہیں اور ہمیشہ کے لیے رہیں گے اور جب جمہورِ عقلاء اس بات کے قائل ہیں کہ مفعول صرف اور صرف حادث ہی بن سکتا ہے خاص طور پر۔
پس ان کے[قدم کے قائلین] قول سے یہ بات لازم آتی ہے کہ حوادث کا حدوث بغیر کسی سبب کے ممکن ہے۔ اور یہ بات بھی کہ اصل موثر تام کی طرف محتاج نہیں ہے؛جو اپنے وجود میں بلکہ قادر ذات اپنے دو مقدورین میں سے کسی ایک کو بغیر کسی مرجع کے ترجیح دیتا ہے اور عالم کے حدوث کے قائلین کا قول اس بات کو مستلزم ہے کہ مفعول مطلق یا مفعول جو کہ قدرت اور ارادے اور اختیار سے وجود میں آتا ہے وہ ازل سے قدیم اور ازلی ہے۔ اپنے فاعل کے ساتھ اور اس فعل کے ساتھ مقارن ہے پس ان دونوں گروہوں کے قول پر جو دو باتیں لازم آتی ہیں ؛ ان میں سے ایک تو بات لازم آگئی کہ کوئی فاعل قادرِ مختار ہو اور بغیر کسی مرجح کے اپنے دو مقدورین میں سے ایک کو ترجیح دے اور اس کے باوجود اس کا مفعول قدیم اور ازلی بھی ہو؛ لیکن عقلاء میں سے ہمارے علم کے مطابق کسی نے بھی ان دو لازم آنے والی باتوں کا التزا م نہیں کیا ہے یعنی اس کا کوئی قائل نہیں ۔
اگر یہ بات فرض کر لی جائے کہ اس کا کوئی قائل ہے تو تحقیق اس نے دو ایسے ملزومین کا اقرار کر لیا کہ جو دونوں باطل ہیں اور ان میں سے ہر ایک برہان اور دلیل کے ساتھ باطل ہے اور عقلاء میں سے کوئی بھی ایسے دو باطل ملزومین کے درمیان جمع (کرنے کے جواز )کا قائل نہیں ہے۔ اور تمام کے تمام عقلاء اس بات پر برہانِ قاطع کے ساتھ رد کرتے ہیں لیکن دو گروہوں میں سے ہر ایک گروہ کے کلام کامعارضہ اور مقابلہ دوسرے گروہ کے کلام کے ساتھ کرتے ہیں ۔ اور اس کا زیادہ سے زیادہ نتیجہ یہ نکلتاہے کہ ایک گروہ کے عقیدہ کا کچھ حصہ فاسد ہو جاتا ہے اور دوسرے گروہ کے عقیدہ کاکچھ حصہ بھی فاسد ہو جاتا ہے۔ لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ دونوں قولین میں سے ہر ایک کے فساد کو وہ جمع کرے اور نہ ان دونوں قسم کے تصادم کے ساتھ جمع عطاء ہے بلکہ یہ تو اس کے قول کے رد کرنے پر بہت زیادہ ابلغ ہے۔
یہ بھی (ملحوظ رہے )کہ ان دو طائفتین میں سے ہر ایک دو فسادوں میں سے ایک فساد سے فرار اختیار کرتی ہے اور دوسرے امر کو فاسد نہیں سمجھتی اور اس نے من کل الوجوہ الصحیح کو جمع کرنے اورمن کل الوجوہ فاسد سے سلامتی کی طرف سیدھی راہ نہیں پائی پس اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اس گروہ پر اس چیز کا الزام لگائے جس کے فساد کو وہ