کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 178
اس کی تفسیر یوں کی ہے کہ اس میں آیت اُفُوْل حرکت ہے۔ پس ابن سینا نے کہہ دیا کہ ایک قوم اس بات کی قائل ہے کہ یہ شے محصوص موجود لذاتہ ہے اور واجب بنفسہ ہے لیکن جب تو یاد کرے گا وہ بات جو واجب الاوجود بننے کے لیے شرط ہے تو پھر تم اس محصوص کو واجب نہیں سمجھو گے اور تو اللہ تعالی کے اس قول ’’لَا أُحِبُّ الْآَفِلِینَ‘‘ (انعام:۷۶)کی اطلاع کرو گے اس لیے کہ امکان کے حوض میں جو ہے گرجانا یہی افول ہے۔ اور شر سے اس کی مراد یہ ہے کہ وہ ذات مرکب نہیں اور جو چیز مرکب ہو تو وہ ممکن ہوتی ہے واجب نہیں ہوتی اور ممکن ہی عاقل ہے یعنی غروب ہونے والا ہے یا متحرک ہے۔ اس لیے کہ امکان ہی تو افول ہے اور ان کے نزدیک آخر یہ وہی ذات ہے جو موجود بغیریہی ہو یعنی اس کا وجود کسی غیر کے سبب ہو اور وہ اس بات کے قائل ہیں کہ ہم ممکنات کے امکان کے ذریعے واجب پر استدلال کرتے ہیں اور ہم کہتے ہیں کہ عالم قدیم ہے ،ازل سے ہے اور ہمیشہ کے لیے رہے گا اور اہم اللہ تعالی کے اس قول ’’لَا أُحِبُّ الْآَفِلِینَ کا معنی یہ بتلاتے ہیں کہ ’’میں ممکن کو پسند نہیں کرتا ہوں ‘‘اگرچہ ممکن واجب الاوجود لغیریہی ہے قدیم اور ازلی ہے اور ازل سے ہے اور ہمیشہ رہے اور اور یہ بات تو معلوم ہے کہ دونوں باتوں میں سے ہر ایک تحریف کے قبیل سے ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے کلمات کو اپنے اصل مراد سے ہٹا دینا ہے اور افول تو افک میں غائب ہونا ہے پردہ کے پیچھے چلے جانا ہے نہ کہ امکان کے معنی میں ہے اور نہ حصر کے معنی میں ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے اس قول کے ذریعے حدوث ِ کواکب پر استدلال نہیں کیا اور نہ سامنے کی اس بات پر؛ بلکہ اس نے اس لفظ افو ل کے ذریعے استدلال کیا ان کی عبادت کے بطلان پر؛ اس لیے کہ یہ عقیدہ مشرکین کا تھا جو کواکب کی عبادت کرتے تھے اور اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکارتے تھے۔ وہ یہ نہیں کہتے تھے کہ یہی کواکب جو ہیں انہوں نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اس لیے کہ اس کا تو کوئی بھی عاقل عقلمند قائل نہیں اسی وجہ سے انہوں نے یہ کہا ﴿یَا قَوْمِ إِنِّی بَرِیء ٌ مِمَّا تُشْرِکُونَ ﴾( انعام: ۷۸) ’’ اے میری قوم ! میں تمہارے ان شرکیہ اعمال سے بری ہوں ۔‘‘ اور یہ بھی کہا: ﴿ أَفَرَأَیْتُمْ مَا کُنْتُمْ تَعْبُدُونَ ۰أَنْتُمْ وَآَبَاؤُکُمُ الْأَقْدَمُونَ ۰ فَإِنَّہُمْ عَدُوٌّ لِی إِلَّا رَبَّ الْعَالَمِینَ ﴾( شعراء : ۷۵ ) ’’کہا تو کیا تم نے دیکھا کہ جن کو تم پوجتے رہے۔ تم اور تمھارے پہلے باپ دادا۔سو بلاشبہ وہ میرے دشمن ہیں ، سوائے رب العالمین کے۔‘‘ اور اس بات پر کلام اس کے علاوہ کئی جگہ تفصیل سے گزر چکا ہے۔ مقصود تویہاں پر یہ ہے کہ یہ قوم ان مسلمانوں کی عبارات لیتے ہیں جنھوں نے ان عبارات سے کوئی ایک