کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 177
بات کرتے ہیں تو وہ اس بات کو ممکن فرض کرنے میں انتہائی تاب اور مشقت اٹھاتے ہیں جس طرح کے دوسرے ممتنع اقوال کے قائلین بھی بہت ہی مشقت میں پڑے ہوئے ہیں اور پھر اس کے ساتھ ساتھ فطرتِ سلیمہ بھی اس بات کو رد کرتی ہے اور اس کودفع کرتی ہے اور ہر گز اس کو قبول نہیں کرتی اور اس سے زیادہ تعجب کی بات تو ان لوگوں کا عالم کا محدث نام رکھنا ہے اور وہ اس سے مراد لیتے ہیں کہ وہ علتِ قدیمہ کا معلول ہے اور جب ان سے پوچھا جائے کہ کیا عالم حادث ہے یا قدیم تو جواب میں کہتے ہیں کہ وہ حادث اور قدیم دونوں ہیں اور اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ فلک وہ بذاتِ خود قدیم ہے اور ازل سے ہے اور یہ بات بھی کہ حادث ہے تو اس بات سے کہ وہ حادث ہے ان کی مراد اس کے حادث ہونے سے یہ ہے کہ وہ معلول ہے کسی علتِ قدیمہ کا۔ ان لوگوں کے استدلال کا بطلان جو امکان اور حرکت پر لفظ افول سے استدلال کرتے ہیں جو ابراہیم علیہ السلام کے قول میں مذکور ہے : اور یہ ابن سینا اور باطنیہ میں سے ان کے امثال لوگوں کی عبارت ہے اس لیے کہ وہ مسلمانوں کی عبارات لیتے ہیں اور ان کو اپنے من مانی معانی پر محمول کرتے ہیں جس طرح کہ انہوں نے لفظ ’’افول ‘‘میں بھی کہا ہے کیوں کہ یقیناً اس نئے کلام کے قائلین جب کہ انہوں نے افعال کے حدوث پر استدلال کیا ۔اس جملے کو اس طرح لکھا جائے اس لیے کہ یقیناً اس نئے کلام کے قائلین نے جب افعال کے حدوث کے ذریعے اس فاعل کے حدوث کے پر استدلال کہ جس کے ساتھ افعال قائم ہوتے ہیں اور انہوں نے یہ خیال کیا کہ ابراہیم علیہ السلام نے بھی اس سے استدلال کیا ہے اور یقیناً افول سے ان کے قول میں افول سے مراد حرکت اور اتصال ہے اور یہ کہ یقیناً اس نے اس بات کے ذریعے یعنی لفظِ افول کے ذریعے استدلال کیا ہے متحرک اور منقل کے حدوث پر ابن سینا نے اس مادے کو اس کے اصل کی طرف منتقل کر دیا ہے اور اس نے اپنی اشارات نامی کتا ب میں اس بات کو ذکر کیا ہے پس اس نے اس لفظ افول کو امکان سے عبارت قرار دیا ہے یعنی یہ امکان کے معنی میں ہے اور اس نے کہا کہ جو چیز امکان کے حضیراہ میں یعنی امکان کے حوض میں گر پڑا تو وہ گویا وہ حرکت کے تالاب میں جھنڈ میں گر پڑا اور اس کا لفظ یہ ہے ابن سینا کا لفظ یہ ہے یقیناً ہوا جو ہے حضیرت الامکان میں وہ افول ہی ہے اور انہوں نے یہ بات اس لیے کہ کہ اس کا ارادہ یہ ہے کہ وہ اپنے سے گذشتہ فلاسفہ کے قول کے مطابق جو ہے بات کریں باوجود یہ کہ وہ اس کے بھی قائل ہیں کہ جو متکلمین کے طریقے کے مشابہ ہے اور متکلمین نے تو جسم کے حدوث پر ترکیب کے طریقے پر استدلال کیا ہے پس اس نے اس ترکیب کو امکان پر دلیل قرار دیا اور متکلمین نے اپنی دلیل کو وہی دلیل قرار دی جو ابراہیم علیہ السلام کی دلیل ہے اپنے اس قو ل کے ذریعے: ﴿لَا أُحِبُّ الْآَفِلِینَ ﴾ (انعام:۷۶) ’’میں ڈوبنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘