کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 176
میں اور اس کا عدم ممکن ہو اس کے وجود کے بدلے میں اور یہ ان ممکن میں ہو سکتا ہے کہ جس کے بارے میں یہ بات فرض کرنا ممکن ہو کہ وہ موجود بھی ہو سکتا ہے اور معدوم بھی لیکن وہ ذات جس کا قدم بذاتِ خود یا بغیرہ واجب ہے تو اسکے بارے میں یہ فرض کرنا کہ وہ معدوم ہے یا ممتنع ہے پس یہ بات بھی ممتنع ہوئی کہ ممکن بنے۔
انہوں نے کہا اور یہ وہی بات ہے جس پر جمہورِ عقلاء متفق ہیں یہاں تک کہ ارسطوا اور اس کے متقدمین اتباع بھی یہ کہتے ہیں کہ بے شک ممکن وہ صرف اور صرف محدث ہی ہوتا ہے اسی طرح ابن اردس اور اکیل اور اس کے علاوہ دیگر متاثرین کی بھی یہی رائے ہے اور بے شک اس نے یہ کہا کہ ممکن قدیم ہوتا ہے یہ ان میں سے ایک گروہ نے کہا ہے جیسا کہ ہ ابن سینا اور ان کے امثال اور اس بات پر اس کی اتباع امام رازی اور ان کے علاوہ دیگر لوگوں نے کی ہے اورکہ جن کا ان کے پاس کوئی صحیح جواب نہیں جس طرح کے ان میں بعض امام رازی رحمہ اللہ نے اپنی محصل میں ذکر کیے ہیں اور ان کے محققین اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ فاعل کی طرف محتاج محض حدوث ہیں تاکہ وہ اس بات کے قائل ہو جائیں کہ محدث چیز اپنی بقا کی حالت میں فاعل سے مستغنی ہے بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ فاعل کی طرف حالتِ حدوث اور حالتِ بقا دونوں میں محتاج ہیں اور یقیناً ممکن وہ پیدا ہی نہیں ہو سکتا اور نہ پھر پیدا ہونے کے بعد باقی رہ سکتا ہے مگر کسی موثر کی وجہ سے پس یہ وہ بات ہے کہ جس پر مسلمانوں کے جمہورِ علماء اس کے قائل ہیں بلکہ اس پر جمہورِ عقلاء بھی اس کے قائل ہیں اور وہ بھی یہ نہیں کہتے کہ عالم میں سے کوئی شے ایسی بھی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے غنی ہے اپنی حالتِ بقا میں ، بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ جب یہ بات فرض کر دی گئی کہ کوئی بھی حادث ایسا نہیں ہے بلکہ یہ بات فرض کر دی گئی کہ وہ حادث نہیں ہیں تو یہ بات ممتنع ہوئی کہ وہ مفعول بنے اور کسی موثری کی طرف محتاج بنیں پس ان کے نزدیک بھی قدم وہ فاعل کی طرف محتاج ہونے کے منافی ہے اور اس طرح اس کا مفعول ہونے کے منافی ہے پس ان کے نزدیک یہ حدوث یہ کسی شے کے مفعول بننے کے لواز م میں سے ہے پس ان کے نزدیک یہ بات ممتنع ہوئی کہ وہ مفعول بنے ،مفعولِ قدیم بنے اور یہ خبریہ اور جبریہ صرف جبریہ وغیرہ کا قول نہیں بلکہ جمہورِ عقلاء کا قول ہے اور یہی جمہورِ عقلاءِ فلاسفہ کا قول بھی ہے۔
رہا فلک کا مفعولِ قدیم بنانا تو یہ فلاسفہ میں سے چھوٹی سی جماعت کا قول ہے اور جمہورِ عقلاء کے نزدیک یہ اس کا فساد بالکل واضح ہے اور بدیہی طور پر معلوم ہے اسی وجہ سے عقلاء میں سے جس نے اس بات کا تصور کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا ہے تو اس کا یہ تصور بھی پیدا ہوا کہ یہ آسمان و زمین یہ وجود میں آئے بعد اس کے کہ معدوم تھے اور جس نے بھی اس بات کا تصور کیا کہ موجودات میں سے کوئی شے ایسی بھی ہے کہ جو مصنوع ہے یعنی اسکو پیدا کیا گیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ مفعول ہے تو ا س کا یہ تصور بھی اس کے ساتھ ہوا کہ یہ چیز حادث ہوگی اور رہا اس بات کا تصور کہ وہ مفعول ہے اور وہ قدیم ہے تو یہ باتیں عقل میں آتی ہیں بطورِ فرض کے جس طرح کہ جمع بین النقیضین کو صرف فرض ہی کیا جا سکتا ہے یعنی خارج میں اس کا کوئی وجو دنہیں اور جو لوگ یہ